زمانے کی تیز رفتار سواریوں نے جب مسافت کو مختصر کردیا ہے تو عورتوں کے سفر کے مسئلے میں اس کے پیش نظر غوروفکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت کی روشنی میں حسب ذیل سوالات کے جوابات دیجیے
۱-مثال کے طورپر کوئی دینی اجتماع اتنے فاصلے پرہوتا ہے کہ بس چند گھنٹوں میں وہاں پہنچا دیتی ہے۔اور اس اجتماع میں شرکت کرکے خواتین اسی دن اپنے گھر واپس آسکتی ہیں۔ حدیث میں عورتوں کو شوہر یا کسی محرم کے بغیر تین شبانہ روز کی مسافت پرسفر کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیااس زمانے میں کوئی عورت محرم کےبغیر سوڈیڑھ سومیل کا سفر کرکے اسی دن اپنے گھر واپسی آسکتی ہے۔
۲-خواتین کے لیے مخصوص بس کا انتظام ہوتاہے جس میں خواتین وطالبات اور نابالغ بچے سفر کرتے ہیں، ان کے ساتھ ایک معمر نگراں ہوتا ہے۔ کیا اس صورت میں عورتیں شوہر وں یا محرموں کے بغیر سفر کرکے کسی دینی اجتماع میں شریک ہوسکتی ہیں ؟
۳- کسی عورت کے محرم مکہ معظمہ میں موجود ہیں اور وہ ہوائی جہاز سے سفر کرکے اسی دن مکہ پہنچ سکتی ہے اور وہاں اپنے محرم کے ساتھ حج کرکے ان کے ساتھ واپس آسکتی ہے۔ کیا ایسی صورت میں وہ تنہا بغیر محرم کے مکہ کا سفر کرسکتی ہے؟
جواب
عورتوں کے لیے شوہر وں یا محرموں کے بغیر سفرکی ممانعت جن احادیث میں آئی ہے۔ ان سے مسائل کے استنباط میں ائمہ مذاہب کے درمیان اختلاف واقع ہواہے۔ اس مسئلے میں سب سے سخت حکم مسلک حنبلی میں ہے۔اس کی روسے عورت کسی حال میں شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتی، یہاں تک کہ حج کے لیے بھی نہیں جاسکتی۔ فقہ حنفی میں اگر سفر کی مسافت تین شب وروز یا اس سے زیادہ ہو تو عورت جوان ہویا بوڑھی اپنے شوہر یا محرم کے بغیر بھی سفر نہیں کرسکتی اور حج کے لیے بھی نہیں جاسکتی۔ مالکی وشافعی مسلکوں کی روسے عورتوں کے کسی ایسے قابل اعتماد قافلہ میں جن کے ساتھ ان کے شوہر یا محرم ہوں، کوئی عورت اپنے شوہر یا کسی محرم کے بغیر بھی سفرکرسکتی اور حج کے لیے بھی جاسکتی ہے۔ اور غالباً ابن حزم کامسلک یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر یا کسی محرم کے بغیر بھی حج کے لیے سفرکرسکتی ہے۔
ان اقوال کے مطالعے کے بعد ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احادیث میں عورتوں کے لیے شوہر یا کسی محرم کے بغیر سفر کی جو ممانعت آئی ہے اس کی مصلحت کیا ہے؟ بعض احادیث کے الفاظ اور فقہ حنفی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی مصلحت عورتوں کو فتنے سے بچانا اور ان کی عصمت کاتحفظ ہے۔ ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یخلون رجل بامرأۃ ولا تسافرن امرأۃ الا ومعھا محرم فقال رجل یا رسول اللہ اکتتبت فی غزوۃ کذ او کذا وخرجت امرأتی حاجۃ قال اذھب فاحجج مع امراتک۔ (مشکوٰۃبحوالہ بخاری ومسلم)
’’ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ جائے اور کوئی عورت سفرنہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔ یہ سن کر ایک شخص نے کہا یارسول اللہ میرا نام فلاں اور فلاں غزوے میں لکھ لیاگیا ہے اورمیری بیوی حج کے ارادے سے نکل چکی ہے۔ آپؐنے فرمایا تم جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘
اس حدیث میں دوممانعتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے تخلیہ نہ کرے اور دوسری یہ کہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ اس حدیث میں کسی مسافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں تین شبانہ روز کا ذکر ہے اور بعض میں دودنوں کا اور بعض میں اس سے بھی کم۔ پہلی ممانعت کی مصلحت واضح ہے یعنی مرد اور عورت دونوں کو فتنے سے بچانا۔ اس سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسری ممانعت کی مصلحت بھی وہی ہوگی جو پہلی ممانعت کی ہے۔ فقہ حنفی کا ایک جزئیہ ہے کہ اگر کسی عورت کا کوئی محرم فاسق ہوتو وہ اس کے ساتھ سفر نہیں کرسکتی۔ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ممانعت کی مصلحت، عورت کی عصمت کی حفاظت اوراس کو فتنے سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس کی صراحت موجود ہے۔
ولھا ان تخرج مع کل محرم سواء کان بنسب او ررضاع اوصھریہ مسلما کان او کافرا او عبداالا ان یعتقد حل مناکحتھا کالمجوس او یکون فاسقا اذ لا یومن معہ الفتنۃ۔ (فتح القدیر،ج۲،ص۱۳۰،مطبوعہ مصر)
’’اور عورت کو اختیار ہے کہ ہر محرم کے ساتھ سفر کرے خواہ وہ نسب کے رشتے سے محرم ہویا دودھ کے رشتے سے یا خسرداماد کے رشتے سے اور خواہ وہ محرم مسلمان ہویا کافر یا غلام الا یہ کہ کوئی محرم ایسا ہو جو اس سے نکاح کو حلال جانتا ہوجیسے مجوسی یا یہ کہ وہ فاسق ہوکیوں کہ اس کے ساتھ وہ فتنے سے محفوظ نہ ہوگی۔‘‘
عورت کے لیے محرم وہ ہے جس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہوتا ہے۔ نسب کے رشتے سے محرم جیسے باپ،بیٹا،چچا،ماموں وغیرہ۔ دودھ کے رشتے سے محرم جیسے رضاعی بیٹا،رضاعی بھائی، رضاعی باپ وغیرہ۔صہریعنی خسراور داماد ہونے کے رشتے سے محرم جیسے خسر،داماد وغیرہ۔
اب فرض کیجیے کہ کسی عورت کا مثال کے طورپر رضاعی بھائی یاداماد یا چچا یاماموں فسق وفجور میں مبتلا ہوتو کوئی عورت اس طرح کے کسی محرم کے ساتھ بھی سفر نہیں کرسکتی، کیوں کہ اس کے فاسق ہونے کی وجہ سے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو محرم کی بات ہوئی شوہر کے بار ے میں بھی فقہائے احناف نے صراحت کی ہے کہ اگر وہ فاسق اور بے حیا ہو تو مسلمان عورت کے لیے اپنے ایسے شوہر کے ساتھ سفر کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اصل شرعی مصلحت عورتوں کی عزت وآبرو کی حفاظت ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں
۱-کسی عورت کا تنہا شوہر یا کسی محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہے خواہ وہ سفرسوڈیڑھ سو میل کا یا اتنی دور کا ہو کہ وہ کسی دینی اجتماع میں شرکت کرکے اسی دن گھر واپس آسکتی ہو۔ البتہ اگر چند عورتیں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ان کے قابل اعتماد شوہر یا کوئی محرم ہوں تو اس قافلہ کے ساتھ کسی عورت کے لیے اتنی دور کا سفر اپنے شوہر یا محرم کے بغیر بھی جائز ہونا چاہیے۔
۲-آ پ نے جو دوسری صورت لکھی ہے وہ دوشرطوں کے ساتھ جائز ہوگی۔ ایک یہ کہ ان طالبات میں سے کسی ایک کا کوئی قابل اعتماد محرم ساتھ ہو اور دوسری یہ کہ جس جگہ کاسفر کرنا ہو وہاں عورتوں کے تحفظ کا قابل اطمینان انتظام ہو۔
۳-آپ نے جو تیسری شکل لکھی ہے وہ عام حالات میں توجائز معلوم ہوتی ہے۔لیکن کبھی کبھی ہوائی جہاز میں کسی خرابی یا کسی اور وجہ سے اس کو درمیانی کسی منزل پراترنا پڑتا اورکئی کئی گھنٹے رک جانا پڑتا ہے۔اس لیے تنہا کسی عورت کا سفر کرنا اندیشے سے خالی نہیں ہے۔ (فروری ۱۹۸۰ء،ج۶۴،ش۲)