عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل

مارننگ نیوز] کراچی[ کی ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سر ہربرٹ ولنگٹن نے ایک مکمل بیوی کی خصوصیات بیان کی ہیں ۔اس کٹنگ کا ترجمہ یہ ہے: ’’رومن کیتھولک عدالت طلاق کے سابق جج سرہربرٹ ولنگٹن نے اپنے ایک فیصلے میں ایک مکمل بیوی کی چودہ خصوصیات گنائی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: صوری کشش،عقل مندی، محبت، نرم خوئی، شفقت، خوش اطواری، جذبۂ تعاون، صبر وتحمل، غور وفکر، بے غرضی، خندہ روئی، ایثار، کام کی لگن اور وفا داری۔ سرہربرٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تمام خصوصیات ان کی دوسری بیوی میں موجود تھیں جس سے انھوں نے اگست ۱۹۴۵ء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد شادی کی تھی۔سرہربرٹ جنھوں نے اپنی عدالت میں سیکڑوں ناکام شادیوں کو فسخ کیا ہے،۸۶برس کی عمر پاکر جنوری۱۹۶۲ء میں وفات پا گئے ہیں ۔‘‘ اس کٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ سرہربرٹ نے عفت یا پاک دامنی جیسی خوبی کو اِ ن چودہ نکاتی فہرست میں براے نام بھی داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔گویا اب پاک دامنی کا شمار عورت کی خوبیوں میں نہیں کیا جاتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک عورت پاک دامنی کے بغیر کس طرح خاوند کی وفا دار رہ سکتی ہے؟
جواب

آپ کا عنایت نامہ ملا جس کے ساتھ آپ نے انگلستان کی ایک عدالت طلاق کے جج کی وصیت ارسال کی ہے اور مجھے اس پر اظہار خیال کی دعوت دی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اہل مغرب کے ہاں سے یہ تخیل اب قریب قریب ختم ہی ہوچکا ہے کہ پاک دامنی بھی عورت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ اختلاط مرد وزن کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ان کے ہاں بدکاری بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ معاشرے کو اب اس کے رواج عام سے اپنے آپ کو مانوس کرنا پڑا۔اب وہاں کوئی شخص بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ شادی کے روز اسے بیوی کنواری ملے گی اور شادی کے بعد بھی وہ باعفت اور وفا شعار رہے گی۔وہاں مرد بالعموم کورٹ شپ کے دوران میں خود اپنی ہونے والی بیوی سے زنا کرچکا ہوتا ہے اور اکثر شادی ہی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکی حاملہ ہوجاتی ہے۔ اس حالت میں آخر آپ یہ توقع ہی کیسے کرسکتے ہیں کہ ان کے ہاں اب تک پاک دامنی عورت کی ایک محمود صفت اور بیو ی کی ایک لازمی خوبی سمجھی جاتی رہے۔
میں کہتا ہوں کہ ان کا کیا ذکر ہے ،ہمارے حکمران طبقوں اور اونچی سوسائٹی کے لوگوں کی بدولت اب جس رفتار سے ہمارے ہاں اختلا ط مرد وزن بڑھ رہا ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے ضبط ولادت کے طریقوں کو جس طرح عام کیا جارہا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے خود ہمارے ہاں یہی حالات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں ۔ خدا ان لوگوں کو یا تو ہدایت دے یا پھر ہماری قوم کو ان سے نجات دے جو خود بگڑے ہیں اور ساری قوم کو بگاڑ دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔
(ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۶۲ء)