عورت کی ملازمت کے لیے نئے قواعد کی ضرورت

آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ عورت کسی دور میں معیشت کے لیے زیادہ کام نہیں کرسکتی تو دوسرے دور میں کرسکتی ہے۔ لیکن اگر اسے معاشی جدوجہد میں آنا ہے تو اسے شروع سے اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تعلیم پیشہ ورانہ ہو۔ ورنہ وہ بعد میں اس میدان میں کیسے داخل ہوگی؟
جواب

یہ سوال بڑا اہم اور غور و فکر کا طالب ہے۔ عورت اگر پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرتی ہے تو اسے اس کا حق ہے۔ اس پر پابندی لگانا درست نہ ہوگا۔ خاندان کی ذمے داریاں ادا کرنے کے بعد وہ شوہر کی اجازت سے کوئی ذریعۂ معاش اختیار کرنا چاہتی ہے یا عمر کے ایک مرحلہ میں وہ اس کے لیے زیادہ وقت دینے کے موقف میں ہے تو اسے اس کے مواقع فراہم ہونے چاہئیں ۔اس کے لیے مناسب تدابیر سوچی جانی چاہیے۔ اسی ذیل میں اس کی ملازمت کا سوال بھی سامنے آتا ہے۔ اس وقت جو ضابطے اور قوانین موجود ہیں ان میں زیادہ تر مردوں کی سہولتوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ مردوں کے لیے جو اوقاتِ کار ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ خواتین کے لیے موزوں نہ ہوں ۔ مردوں کے تقرر (Appointment) اور سبک دوشی (Retirement) کے جو قواعدہیں خواتین کے لیے ان میں تبدیلی لانی پڑے۔ چالیس برس کی عمر میں بھی اگر عورت ملازمت شروع کرنا چاہے تو اسے اس کے مواقع حاصل ہوں ۔ اور اسے سبک دوش بھی ساٹھ کے بعد کیا جائے۔ اس کے ساتھ اس کی قوت کار اور صحت و توانائی کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا۔ اس پہلو سے ہم سب کو تو غور کرنا ہی چاہیے، لیکن اصلاً یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی نقطۂ نظر سے ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے اور خواتین کی خدمات کے لیے کوئی نیا نقشۂ کار مرتب کرے۔