کسی ایسے قافلے کے ساتھ جس میں قابل اعتماد مرد ہوں اور قابل اعتماد عورتیں بھی، کوئی عورت اپنے شوہر یا اپنے کسی محرم کے بغیر حج کرسکتی ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس مسئلے میں بوڑھی عورت کا وہی حکم ہے جو جوان عورت کا ہے؟
جواب
اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہمااللہ کا مسلک یہ ہے کہ عورت جوان ہویا بوڑھی،اگر شوہر یا اس کا کوئی محرم ساتھ نہ ہوتو وہ حج نہیں کرسکتی۔ امام مالک اورامام شافعی رحمہما اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ عورت خواہ جوان ہویا بوڑھی ایسے قافلے میں جس میں قابل اعتماد عورتیں بھی ساتھ ہوں، حج کرسکتی ہے۔
امام ابوحنیفہ اورامام احمد بن حنبل کی رائے یہ ہے کہ عورت پرحج کرنا اس وقت تک واجب ہی نہیں ہوتا جب تک سفر حج میں اس کا شوہر یا کوئی محرم اس کےساتھ نہ ہو۔ امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ عورت پر وجوب حج کے لیے شوہر یا کسی محرم کی ہم راہی شرط نہیں ہے۔قرآن میں وجوب حج کےلیے استطاعت کی شرط لگی ہوئی ہے۔
وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۰ۭ (آل عمران۹۷)
’’اور جو لوگ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کے اوپر اس گھر کا حج ہے۔‘‘
قرآن میں استطاعت کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ائمہ نے اس کی تفصیل احادیث نبوی اور اپنے استنباط سے مرتب کی ہے۔ یہاں پوری تفصیل پیش کرنی نہیں ہے بلکہ صرف زیر بحث مسئلے کو سامنے رکھنا ہے۔ امام ابوحنیفہ اورامام احمد فرماتے ہیں کہ عورت کو حج کی استطاعت اسی وقت ہوتی ہے جب اس کا شوہر یا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے پوری تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ بعض احادیث میں ہے کہ وہ تین دنوں کا سفر بغیر محرم نہیں کرسکتی اور بعض میں دودنوں کاذکر ہے اور بعض میں ایک دن کا اور بعض میں یہ ممانعت بالکل مطلق ہے۔ امام ابوحنیفہ نے تین دنوں والی روایت کو ترجیح دی ہے اور امام احمد فرماتے ہیں کہ مسافت کم ہو یا زیادہ عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ تین دنوں والی حدیث کے الفاظ یہ ہیں
۱- عن ابن عمر لا تسافر المرأۃ ثلثا الا معھاذ ومحرم وفی روایۃ لمسلم لا یحل لا مرأۃ تومن باللہ والیوم الاخر تسافر مسیرۃ ثلاث لیال الا ومعھاذ ومحرم۔ (تفسیر مظہری، جلد۲، ص ۹۳)
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ عورت تین دنوں کاسفر نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جائز نہیں ہے اس عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرپر ایمان رکھتی ہے کہ تین راتوں کی مسافت کاسفر کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔‘‘
۲-عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یخلون رجل بامرأۃ ولا تسافرن امرأۃ الا ومعھا محرم فقال رجل یا رسول اللہ اکتتبت فی غزوۃ کذا وکذا وخرجت امراتی حاجۃ قال اذھب فاحجج مع امراتک۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ)
’’ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تخلیہ نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔ یہ سن کر ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھ لیا گیا ہے اورمیری بیوی حج کرنے نکلی ہے۔ آپ نے فرمایا جائو،اپنی بیوی کےساتھ حج کرو۔‘‘
علامہ ابن ہمام نے بزار کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے
عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تحج المرأۃ الا ومعھا محرم فقال رجل یا نبی اللہ انی اکتتبت فی غزوۃ کذا وامرأءتی حاجۃ قال ارجع فحج معھا واخرجہ الدارقطنی ایضا عن حجاج عن ابن جریح بہ ولفظہ لا تحجن امرأۃ الا ومعھا ذومحرم۔
(فتح القدیر مطبوعہ مصرج،۲،ص ۱۲۹)
’’ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عورت حج نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔تو ایک شخص نے کہا میرا نام فلاں غزوے میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کو جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا لوٹ جائواور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ اسی حدیث کو دار قطنی نے بھی روایت کیا ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ کوئی عورت حج نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔‘‘
انھیں احادیث کی بناپر امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ عورت پرادائے حج واجب ہونے کے لیے اس کے ساتھ اس کے شوہر یا کسی محرم کا ہونا شرط ہے۔ اس کے بغیر اس پر حج کرنا واجب ہی نہیں ہے۔ امام مالک اورامام شافعی ایک طرف تو اسے وجوب حج کے لیے شرط نہیں مانتے اور دوسری طرف خود یہ شرط لگاتے ہیں کہ جب تک قابل اعتماد عورتوں کا ساتھ نہ ہوعورت حج نہیں کرسکتی۔ ان دونوں باتوں میں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ جب شرط لگانی ہی ہے تو وہ شرط کیوں نہ لگائی جائے جو صحیح احادیث میں موجود ہے۔اصل قابل غورمسئلہ یہی ہے کہ عورت پر وجوب حج کے لیے شوہر یا کسی محرم کی ہم راہی شرط ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو پھر اس میں جوان عورت اور بوڑھی عورت کا فرق بے معنی ہے کیوں کہ بغیر اس شرط کے حج ادا کرنا نہ جوان عورت پر فرض ہوگا اور نہ بوڑھی عورت پر۔ جہاں تک راقم الحروف نے مطالعہ کیا ہے امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ ہی کا مسلک مدلل اورتسلی بخش ہے۔ (اگست ۱۹۷۱ء،ج۴۷،ش۲)