جواب
یہ سوال ] دو[ سوالات کا مجموعہ ہے ۔اس لیے ایک ایک جز پر علیحدہ علیحدہ بحث ہوگی۔
عیسائیت کی راہ نمائی کی اہلیت
جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے،اس دور کی راہ نمائی سے وہ پہلے ہی دست بردار ہوچکی ہے۔بلکہ درحقیقت وہ کسی دور میں بھی انسانی تہذیب وتمدن کی راہ نمائی نہیں کرسکی ہے۔ عیسائیت سے مراد اگر حضرت عیسیٰ ؈ کی وہ تعلیمات ہیں جو اب عیسائیوں کے پاس ہیں ، تو بائبل کے عہد جدید کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکتا ہے کہ وہ انسانی تہذیب وتمدن کے متعلق کیا راہ نمائی اور کتنی راہ نمائی کرتی ہے؟اس میں چند مجرد(abstract) اخلاقی اصولوں کے سوا سرے سے کوئی چیز موجود نہیں جس سے انسان اپنی معاشرت اور اپنی معیشت اور سیاست اور عدالت اور قانو ن کے متعلق کوئی ہدایت حاصل کرسکے۔ لیکن اگر عیسائیت سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو عیسائی پادریوں نے بنایا تھا، تو سب کو معلوم ہے کہ یورپ میں احیاے علوم کی نئی تحریک کے رونما ہونے کے بعد وہ ناکام ہوگیا اور مغربی قوموں نے اس کے بعد جتنی کچھ بھی مادی ترقی کی، وہ عیسائیت کی راہ نمائی سے آزاد ہوکر ہی کی ہے،اگرچہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا تعصب اور عیسائیت کے ساتھ ایک جذباتی تعلق اُن میں اس کے بعد بھی موجود رہا اور اب بھی ہے۔
اسلام کی راہ نمائی کی اہلیت
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ،وہ اپنے آغاز ہی سے تمدن وتہذیب کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ راہ نمائی کرتا ہے بلکہ اس نے خود اپنا ایک مستقل تمدن اور اپنی ایک خاص تہذیب بھی پیدا کی ہے۔انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق قرآن مجید نے اور رسول اﷲ ﷺ نے انسان کو ہدایت نہ دی ہو اور ان ہدایات کے مطابق عملی ادارے قائم نہ کردیے ہوں ۔ یہ چیزیں جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں قابل عمل تھیں ،اسی طرح بیسویں صدی میں بھی قابل عمل ہیں اور ہزاروں برس آئندہ بھی ان شاء اﷲ قابل عمل رہیں گی۔ اس ’’ترقی یافتہ دور‘‘ میں کسی ایسی چیز کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے اسلام آج نہ چل سکتا ہو یا انسان کی راہ نمائی نہ کر سکتا ہو۔ جو شخص اس معاملے میں اسلام کو ناقص سمجھتاہو،اس کا کام ہے کہ کسی ایسی چیز کی نشان دہی کرے جس کے معاملے میں اسلام اس کو راہ نمائی سے قاصر نظر آتا ہو۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر1961ء)