غائبانہ نماز جنازہ

,

نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کے سلسلے میں مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوگیاہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ  غائبانہ نماز جنازہ مسنون ہے او ربعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے۔ مہربانی کرکے اس کا مفصل جواب دیجیے۔

جواب

غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ امام شافعیؒ اور دوسرے ائمہ کے نزدیک نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے۔  حدیثوں میں آتا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی(جو مسلمان ہوگئے تھے) کا جب انتقال ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے غائبانہ ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔  امام شافعیؒ اور دوسرے لوگ اسی حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔  حنفی فقہا اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حضورؐ کی خصوصیت تھی اور بادشاہ حبشہ کی بھی خصوصیت تھی۔  حضورؐ نے غائبانہ نماز جنازہ کا نہ کوئی حکم دیا ہے اورنہ خود بادشاہ نجاشی کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی ہے۔ حالاں کہ متعدد صحابہ کرام نے دوسرے مقام پر وفات پائی تھی لیکن حضورؐ نے ان کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی۔ اس سے معلوم ہواکہ یہ کوئی عام حکم نہیں ہے۔ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس وقت بادشاہ حبشہ کا انتقال ہواتھا اس وقت وہاں اسلامی طریقے پرنماز جنازہ ادا کرنے والے لوگ موجود نہ تھے اس لیے حضورؐ نے غائبانہ ان کی نماز جنازہ پڑھی ہوگی۔ لیکن یہ کوئی لڑنے جھگڑنے کی بات نہیں ہے۔اگرکچھ لوگ کسی کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنی چاہتے ہوں تو رکاوٹ ڈالنا صحیح نہیں ہے۔البتہ جس شخص کا یہ خیال ہوکہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے وہ اس میں شریک نہ ہو۔   (مارچ اپریل ۱۹۷۴ء، ج ۵۲،ش۳۔۴)