جواب
اس سوال کو جس طریقے سےآپ نے پیش کیا ہے، اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ آپ، یا جن لوگوں کا نقطۂ نظر یہ ہے، صرف اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ایک فریق کے پاس مال کس نوعیت کا ہے، مگر اس پہلو کو پیش نظر نہیں رکھتے کہ دوسرا فریق اس کو حاصل کس حق کی بِنا پر کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ وہ چور ہے اور اس کے پاس سارا مال چوری کا ہے۔پھر کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے لیے اس کے ہاں چوری کرنا یا اس کی جیب کتر لینا جائز ہے؟ اس میں شک نہیں کہ ا گر متعین طورپر مجھے معلوم ہو کہ اس کے قبضے میں فلاں مخصوص چیز میرے مملوکہ مال سے چرائی ہوئی ہے اور پھر میں کسی وقت اسے حاصل کرلینے پراپنے آپ کو قادر پائوں تو میرے لیے اس کا حاصل کرلینا جائز ہوگا۔ لیکن یہ عام مفروضہ صحیح نہیں ہے کہ چور کے مقبوضہ مال کو چرالینا بہرحال ہر شخص کے لیے حلا ل ہے۔
سود کی جو مثال آپ نے دی ہے وہ یہاں اس لیے منطبق نہیں ہوتی کہ سود ہم بنکر(banker)سے چھینتے یا چراتے نہیں ہیں بلکہ وہ خود اپنے قاعدے کے مطابق اسے نکالتا ہے اور ہم اس لیے مجبوراً اسے لے لیتے ہیں کہ اسے چھوڑنا ڈاکو کے اسلحہ خانے میں چند اور تلواروں کا چھوڑنا ہے تاکہ وہ ان سے مظلوموں کو ذبح کرنے میں اور زیادہ مدد لے۔پھر اس سود کو بھی وصول کرکے خود اپنے استعمال میں لانا حلال نہیں ہے، بلکہ اسے نادار طبقوں میں تقسیم کردینا چاہیے،اس لیے کہ یہ سارا سود دراصل ان غریبوں ہی کی جیب سے آتا ہے جو کسی دوسرے پر اس بلا کو پھینک دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔
یہاں پھر یہ سمجھ لیجیے کہ ہم حکومت کے اموال پر دست درازی کی مخالفت اس لیے نہیں کرتے کہ یہ حکومت کسی ایمان دارانہ برتائو کی مستحق ہے، بلکہ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ خود ہمارے اندر استحقاق کے بغیر فائدہ اُٹھانے کی بیماری پرورش نہ پائے۔ (ترجمان القرآن ،مارچ،اپریل ۱۹۴۴ء)