غلط بیانی اور نفلی حج

عرض یہ ہے کہ میں آج سے چارسال قبل حج ادا کرچکاہوں، مگر پھر حج کے لیے جانے کا ذوق وشوق رکھتا ہوں۔ حکومت کے قانون کے مطابق ۵سال سے قبل دوبارہ حج کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اب اگر میں فارم کے سوال نامے میں حقیقت کے خلاف چارسال کے بجائے پانچ سال پہلے لکھ دوں تو کیا شرعاً ایسا کرنا نامناسب ہوگا یا معافی کی امید کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں اپنا کوئی دنیاوی مفاد بحمداللہ پیش نظر نہیں ہے۔ یہاں ایک مقامی مولوی صاحب کہتے ہیں کہ خلاف حقیقت بات بناکر عبادت کے لیے جانا مناسب نہیں ہے۔ آپ میری خلش شرعاً دور کرکے مجھ پر احسان فرمائیے۔

جواب

آپ خود لکھے پڑھے شخص ہیں اس کے علاوہ ایک مولوی صاحب نے بھی آپ کو بتایا کہ یہ نامناسب بات ہے پھر بھی آپ کو غلط بیانی کے عدم جواز میں شبہ باقی ہی رہا اور آپ کا نفس معافی کی گنجائش تلاش کرتا رہا۔

جو لوگ نفلی حج کے لیے جھوٹ بولتے اور لکھتے ہیں وہ صرف غلط بیانی کے مجرم نہیں ہیں بلکہ دوسروں کی حق تلفی کے مجرم بھی ہیں۔ آپ کے نفس نے آپ کو جو عذر لکھایا وہ یہ ہے

’’کیوں کہ اس میں اپنا کوئی دنیاوی مفاد بحمداللہ پیش نظر نہیں ہے۔‘‘

گویا آپ کے نزدیک دینی مفاد کے لیے جھوٹ بولنا اور کسی کی حق تلفی کرنا جائز ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ جھوٹ اور حق تلفی کےذریعے حاصل کیاہواکوئی مفاد، دینی مفاد باقی ہی کب رہےگا۔ یہ جواب لکھا جاچکا تھاکہ کہ ماہ نامہ ’البلاغ‘ بمبئی جنوری۱۹۷۱ء میں یہ تحریرنظر سے گزری

’’حج کی درخواست کے ساتھ ایک حلف نامہ دینا پڑتا ہے جس میں اس با ت کا اقرارکیاجاتا ہے کہ درخواست دہندہ نے گزشتہ پانچ سال میں حج نہیں کیا۔ اس حلف نامہ پر میونسپل کو نسلر، حج کمیٹی کا ممبر، مجسٹریٹ، ایم ایل اے یا ایم پی کے دستخط ہوتے ہیں۔  گزشتہ دوسالوں میں جھوٹے حلف نامے کرنے والے پچیسوں لوگوں کو حج کے لیے جانے سے روکا گیا اور وہ ذلیل ہوئے۔ امسال تو ٹکٹ کے روپے بھی واپس نہیں ہوئے اور ذلیل ہوئے۔ اس طرح کرنے والوں میں بعض مولویوں یا مولوی نما لوگوں کو دیکھاگیا۔ جھوٹ بہرحال جھوٹ ہے اور یہ سراسر ظلم ہے۔‘‘ (صفحہ ۳۷)

یہ ایک عبرت ناک تحریر ہے۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ جھوٹ بول کر نفلی حج کرنے والے اپنے آپ کو اور مذہب کو ذلیل کرنے کے مجرم بھی ہیں۔      (جون ۱۹۷۱ء،ج۴۶،ش۶)