غیر اسلامی نظام میں شرعی سزائوں کے نفاذ کا مسئلہ

آپ نے اپنی کتاب’’ تفہیمات‘‘ میں سرقہ کے جرم پرہاتھ کاٹنے کی سزا کو ظلم قرار دیا ہے۔ براہ ِکرم اس الزام کی مختصر توضیح فرمادیں تاکہ حقیقت حال معلوم ہوسکے۔
جواب

اﷲ تعالیٰ ان حضرات کو راست بازی و دیانت داری کی توفیق بخشے۔ افسوس ہے کہ یہ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ ({ FR 2177 }) (المائدہ:۱۳)کی عجیب مثالیں پیش کررہے ہیں اور کچھ نہیں سوچتے کہ سب کچھ یہی دنیا تو نہیں ہے ۔کبھی خدا کے سامنے بھی حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔جو الزامات آپ نے نقل کیے ہیں ،ان کا مختصر جواب یہ ہے:
صاحب موصوف کا اشارہ تفہیمات جلد دوم کے اس مضمون کی طرف ہے جو صفحہ ۲۸۰تا ۲۸۵ پر درج ہے۔آپ اسے خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔سارا مضمون ان لوگوں کے شبہات کی تردید میں لکھا گیا ہے جو موجودہ تہذیب سے متاثر ہوکر حدودشرعیہ کو ظالمانہ اور وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اپنے دلائل دیتے ہوئے میں نے جو کچھ لکھا ہے،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اسلامی قانون فوج داری کی دفعات اس مملکت کے لیے ہیں جس میں پورا اسلامی نظام زندگی قائم ہو، نہ کہ اس مملکت کے لیے جس میں سارا نظام کفر کے طریقوں پر چل رہا ہو اور صرف ایک چوری یا زنا کی سزا اسلام کے قانون سے لے لی جائے۔چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا عین انصاف ہے اگر ملک کا معاشی نظام بھی اس کے ساتھ اسلامی احکام کے مطابق ہو،اور یہ قطعی ظلم ہے اگر ملک میں اسلام کی منشا کے خلاف سود حلال اور زکاۃمتروک ہو او رحاجت مند انسان کی دست گیری کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اس ساری گفتگو میں سے اگر کوئی شخص صرف اتنی سی بات نکال لے کہ چوری پر ہاتھ کاٹنے کو یہ شخص ظلم کہتا ہے تو آپ خود ہی سوچیے کہ اس کی سخن فہمی کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا۔ (ترجمان القرآن،نومبر۱۹۵۵ء)