اُصولِ حدیث
میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ا قرار کرتا ہوں کہ اُصولاًصرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریے کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تُل گیا تھا، مگر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک دو چیزیں ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غور وتأمل کا فیصلہ کرنا پڑا۔میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران وسرگرداں مسافر کی حیثیت سے ،جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔مشارالیہ مسائل کے متعلق میری گزارشات پر غور فرمائیں ۔
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:’’مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بِنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر وایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تووہ محض گمانِ صحت ہے،نہ کہ علم الیقین‘‘۔
یہ عقیدہ، جہاں تک بندے کا خیال ہے ،محدثین کے بالکل خلاف ہے۔کتبِ اُصول میں بصراحت موجود ہے کہ جس طرح قرآن مجید مسلمانوں کے لیے قانونی کتاب ہے،اسی طرح حدیث، اور جس طرح قرآن مجید کے احکام،چاہے اصولی ہوں چاہے فروعی،ہمارے لیے حجت ہیں ،اسی طرح احادیث بھی حجت ہیں ۔آپ کے طرز تحریر سے کسی حد تک حدیث سے بے توجہی معلوم ہوتی ہے۔
اس شبہے پر اپنے خیالات سے آگاہ فرمایئے۔
جواب
آپ کے] شبہے[ کا جواب بالا ختصار دے رہا ہوں ۔غالباً یہ چند سطور اطمینان کے لیے کافی ہوں گی۔
نبی ﷺ کے قول وفعل کو میں بھی قرآن کی طرح حجت مانتا ہوں ، اور میرے نزدیک جو عقیدہ حضورﷺ نے بیان کیا ہویاجوحکم آپؐ نے ارشاد فرمایاہو،وہ اسی طرح ایمان واطاعت کا مستحق ہے جس طرح کوئی ایسا عقیدہ یا حکم جو قرآن میں آیا ہو۔ لیکن قولِ رسولؐ اور وہ روایات جو حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں ،لازماًایک ہی چیز نہیں ہیں ، اور نہ ان روایات کو استناد کے لحاظ سے آیاتِ قرآنی کا ہم پلاّ قرار دیا جا سکتا ہے۔آیات قرآنی کے مُنَزَّل مِنَ اللّٰہِ ہونے میں تو کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے ،بخلاف اس کے روایات میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ جس قول یا فعل کو نبیﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورﷺ کا ہے یا نہیں ۔جو سنتیں تواتر کے ساتھ نبیﷺ سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں یا جو روایات محدثین کی مسلمہ شرائطِ تواتر پر پوری اترتی ہیں ، وہ تو یقیناً ناقابل انکار حجت ہیں ۔ لیکن غیر متواتر روایات سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ صرف ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے۔اسی وجہ سے علماے اُصول میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ غیر متواتر روایات احکام کی ماخذ توہوسکتی ہیں لیکن ایمانیات کی ماخذ نہیں ہوسکتیں ۔ (ترجمان القرآن، فروری ۱۹۴۶ء)