نکاح و طلاق و خلع و ازدواجی معاملات
ایک نوجوان نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ اس کا باپ فوت ہوچکا ہے ماں حیات ہے۔ ماں نے اس کی شادی اپنی برادری کے ہندو گھرانے میں طے کردی ہے۔ لڑکا غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنا نہیں چاہتا، مگر ماں بہ ضد ہے اور کہتی ہے کہ تم شادی تو ہندو لڑکی سے ہی کروگے چاہے بعد میں تم اس کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرلو۔ ایسی صورت میں لڑکی اور اس کے والدین کا دباؤ بھی لڑکے پر پڑ سکتا ہے جو مزید پیچیدگی پیدا کرسکتا ہے۔ اور اس کا بھی امکان ہے کہ لڑکی اور اس کے والدین کو لڑکا آئندہ اسلام کی دعوت دے اور وہ اسے قبول کرلیں ۔ بہرحال، آئندہ کیا صورت پیدا ہوگی، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا ان حالات کو سامنے رکھ کر برائے مہربانی شرعی مسئلہ واضح فرمائیں ۔ ساتھ ہی اس سلسلہ میں اٹھنے والے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب بھی ارسال فرمائیں :
۱- صحابہ کرامؓ کے سامنے بھی ایسی صورتیں پیش آتی رہی ہوں گی۔ ان حالات میں ان کے رشتوں کی کیا نوعیت رہی؟
۲- کیا نو مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرکے بعد میں مسلمان بنا لینے کی نیت سے رشتۂ ازدواج قائم کرسکتا ہے؟ اور اس درمیان اس رشتہ سے پیدا ہونے والی اولاد کی کیا حیثیت ہوگی؟ یہ باتیں وضاحت طلب ہیں ۔
جواب
گرامی نامہ ملا۔ آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ازدواجی رشتے قائم ہوتے تھے۔ لیکن مدینہ پہنچنے کے بعد سورۂ بقرہ آیت (۲۲۱) اور سورۂ ممتحنہ آیت (۱۰) میں اس طرح کی شادیوں سے روک دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت سے اور غیر مسلم عورت کا مسلمان مرد سے نکاح جائز نہیں ہے۔ چناں چہ بعض ان صحابۂ کرام نے جن کے عقد میں اس وقت تک غیر مسلم بیویاں تھیں انھیں انھوں نے طلاق دے دی۔
لہٰذا اب کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے بعد غیر مسلم عورت سے شادی نہیں کرسکتا۔ غیر مسلم عورت سے شادی کرلینے کی صورت میں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اپنے اپنے عقیدے پر جمے رہیں اور اختلافات اس قدر بڑھ جائیں کہ گھر چلانا دو بھر ہوجائے۔ اسی کے ساتھ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ نو مسلم بھائی کا آہستہ آہستہ اپنی غیر مسلم بیوی سے اتنا جذباتی تعلق ہوجائے کہ اس کے لیے اسلام پر قائم رہنا مشکل ہوجائے۔ بہرحال، اسلام کی صاف ہدایات کی روشنی میں اس طرح کے نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔ مزید تفصیل راقم کی کتاب ’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔