جواب
جس صورت معاملہ کو آپ دریافت کررہے ہیں ،اس کی دو الگ الگ شکلیں ہیں اور دونوں کا حکم الگ ہے۔
ایک شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک مال بنک کی معرفت بک کرایا اور بعد میں آپ کی اور ایک دوسرے تاجر کی باہمی قرار داد سے وہ بکنگ اس کے نام منتقل ہوگئی۔یہ شکل اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ یہ بکنگ خواہ منافع کے ساتھ بیچی جائے یا محض ایک شخص سے دوسرے شخص کے نام منتقل ہو،بہرحال وہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے شخص کی طرف پوری طرح منتقل ہو جائے۔ یعنی بنک میں لیٹر آف کریڈٹ شخص اوّل کے بجاے شخصِ ثانی کے نام پر کھل جائے، اور شخصِ اوّل کا اس مال کے سودے سے کوئی تعلق باقی نہ رہے،اس کی ہر چیز کا ضامن شخص ثانی ہی ہو،شخص اوّل کی کوئی ذمہ داری اس معاملہ کے ساتھ لگی نہ رہے۔
دوسری شکل یہ ہے کہ اس مال کو بک کرانے کے بعد قبل اس کے کہ وہ یہاں پہنچے اور آپ کے قبضہ میں آئے،آپ اسے اپنے مال کی حیثیت سے منافع پر دوسرے شخص کے ہاتھ بیچیں اور بیعانہ لے لیں ۔ پھر دوسرا تیسرے کے ہاتھ، تیسرا چوتھے کے ہاتھ اسی غائب مال کو اپنا اپنا منافع لگا کر بیچتا اور بیعانہ لیتا چلا جائے۔اس شکل میں خواہ شپ منٹ نہ ہوسکنے یا سودا منسوخ ہوجانے پر ایک شخص بیعانہ واپس کردینے کا کفیل ہی کیوں نہ ہو، اور خواہ ہر ایک نے یہ وعدہ ہی کیوں نہ کرلیا ہو کہ سودے کی منسوخی کی صورت میں کوئی بھی نفع ونقصان کا مطالبہ نہ کرے گا،بہرحال یہ خرید وفروخت شرعاً ممنوع ہے۔ اس کے ممنوع ہونے کی نقلی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
لاَ تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَ كَ({ FR 1459 }) ’’کوئی ایسی چیز نہ بیچو جو فی الواقع تمھارے پاس موجود نہ ہو۔‘‘
فَإِذَا اشْتَرَيْتَ بَيْعًا، فَلَا تَبِعْهُ حَتَّى تَقْبِضَهُ({ FR 1460 }) ’’جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کرو۔‘‘
نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُشْتَرَى الطَّعَامُ ثُمَّ يُبَاعَ حَتَّى يُسْتَوْفَى ({ FR 1461 })
’’نبیﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ ایک شخص غلہ خریدے اورپورا پورا ناپ تول کرلینے سے پہلے اسے آگے کو فروخت کردے۔‘‘
كَانُوا يَتَبَايَعُونَ الطَّعَامَ جُزَافًا عَلَى السُّوقِ، فَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَبِيعُوهُ حَتَّى يَنْقُلُوهُ۔({ FR 1462 }) ’’لوگ غلے کے ڈھیر منڈی میں کھڑے کھڑے خریدتے اور وہیں بیچ دیتے تھے۔ حضورﷺ نے حکم دیا کہ جب تک غلہ اس جگہ سے منتقل نہ کردیا جائے،آگے نہ بیچا جائے۔‘‘
ان احادیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک چیز کو خرید کر قبضے میں لیے بغیر بیچنا ممنوع ہے۔
اس کے ممنوع ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اوّل تو اس طرح کی خرید وفروخت میں جھگڑے کے امکانات زیادہ ہیں ۔دوسرے اس میں بغیر کسی حقیقی تمدنی خدمت کے ایک شخص سے دوسرا شخص ایک غائب چیز کو اپنا منافع لگا لگا کر بیچتا اور خریدتا چلا جاتا ہے،یہاں تک کہ صارفین (consumers) تک پہنچتے پہنچتے اس چیز کی قیمت چڑھ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔یہ بہت سے بچولیوں کی منافع خوری، بغیر اس کے کہ وہ واقعی کوئی خدمت اس مال کے پیدا کرنے یا فراہم کرنے میں انجام دیں ، خواہ مخواہ اشیا کی قیمتیں چڑھنے کی موجب بنتی ہے۔ (ترجمان القرآن ، ستمبر۱۹۵۱ء)