جواب
’’فرعون‘‘ مصر کے بادشاہوں کا ایک خاندانی لقب تھا۔ فرعونِ موسیٰ کے بارے میں بنی اسرائیل کی متفقہ روایات یہ ہیں کہ وہ دو تھے۔ جدید تاریخی تحقیقات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں ۔ اور عقل بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ دو ہوں ۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ ؑپچاس سال کی عمر میں نبی ہو کر فرعون کے دربار میں پہنچے ہیں اور تیس سال کی کش مکش کے بعد آخر کار فرعون غرق ہوا ہے اور بنی اسرائیل ملک سے نکلے ہیں ۔ گویا اس وقت حضرت موسیٰ ؈کی عمر ۸۰ برس تھی۔ا ب یہ بات کم ہی قرین قیاس ہے کہ یہ وہی فرعون ہوجس کے گھر میں حضرت موسیٰ ؈نومولود کی حیثیت سے پہنچے تھے اور جس کی بیوی نے ان کو متبنّٰی بنایا تھا۔ مؤخر الذکر خیال کی تائید میں جو آیتیں پیش کی جاتی ہیں ، وہ اس باب میں صریح الدلالت نہیں ہیں ۔ مثلاًان میں سے ایک آیت وہ ہے جس میں فرعون کا قول منقول ہوا ہے کہ اَ لَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدً ا (الشعرائ :۱۸) ’’کیاہم نے تجھے بچہ سا اپنے گھر میں نہیں پالا تھا؟‘‘ لیکن کیا باپ کے ہاں پرورش پائے ہوئے آدمی سے بیٹایہ بات نہیں کہہ سکتا کہ تجھے ہم نے اپنے ہاں پالا ہے؟ اسی طرح سورۂ القصص میں جس امرأۃ فرعون کا ذکر ہے،بعض کے خیال میں وہ لازماً وہی ہونی چاہیے جس کا ذکر سورۂ التحریم میں آیا ہے۔ لیکن ان دونوں کے دو الگ شخصیتیں ہونے میں آخر کیا چیز مانع ہے؟قرآن مجید میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے کہ فرعون کی جو بیوی حضرت موسیٰ ؑپر ایمان لائیں ، وہ وہی تھیں جن کے سامنے حضرت موسیٰ ؑٹوکری میں تیرتے ہوئے شیر خوار بچے کی حیثیت سے پہنچے تھے اور جنھوں نے ان کو قتل سے بچا کر بیٹا بنا لیا تھا۔(ترجمان القرآن،فروری ۱۹۶۱ء)