جواب
موجودہ زمانے کی فوجوں کی اخلاقی تربیت
آپ کے سوال میں ایک پیچیدگی ہے جسے شاید آپ نے اپنا سوال تحریر کرتے دقت محسوس نہیں کیا۔آپ جس مسئلے کاحل دریافت کرنا چاہتے ہیں ،اس میں آپ کے پیشِ نظر تو ہیں موجودہ زمانے کی فوجیں اور ان کی ضروریات،لیکن اس کا حل چاہتے ہیں آپ اسلام سے۔ حالاں کہ اسلام جن فوجوں کی ضروریات کا ذمہ لیتا ہے وہ اُس کی اپنی فوجیں ہیں نہ کہ فسّاق وفجّار اور جبابرہ کی فوجیں ۔
موجود زمانے کی فوجوں کا حال یہ ہے کہ انھیں محض لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، اور جو سلطنتیں ان کو تیار کرتی ہیں ،ان کے پیش نظرکوئی پاکیزہ اخلاقی نصب العین نہیں ہوتا۔ اگر وہ اپنی فوج تیار کرتی ہیں تو ان کے اندر صرف وہ اخلاقیات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو قوم کا جھنڈا بلند کرنے اور بلند رکھنے کے لیے درکار ہیں ، اور ظاہر ہے کہ ان اخلاقیات میں طہارتِ اخلاق کے عنصر کا کوئی مقام نہیں ہے اور اگر وہ اپنی محکوم قوموں میں سے اپنی اغراض کے لیے فوجیں تیار کرتی ہیں تو انھیں صرف اس اخلاق کی تربیت دیتی ہیں جو پالتو شکاری کتوں میں پیدا کیا جاتا ہے،یعنی یہ کہ روٹی دینے والے کے وفا دار رہیں اور شکار اس کے لیے ماریں ،نہ کہ اپنے لیے۔ اس کے سوا کسی دوسرے اخلاق کی ا ہمیت سرے سے ان ’’مہذب‘‘ قوموں میں ہے ہی نہیں ۔ رہیں زنا، شراب،جوا اور دوسری قسم کی بداخلاقیاں ، تو نیچے سے لے کر اونچے طبقوں تک وہ ان کے ہاں پوری قوم کے اندر پھیلی ہوئی ہیں ۔نیز جب کہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر ہی یہ ہے کہ ’’بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘({ FR 2134 }) تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی فوجوں میں کسی قسم کا اخلاقی انضباط پایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی فوجیں ماردھاڑ کے فنون میں تو انتہائی کمال کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں ،لیکن طہارتِ اخلاق کے نقطۂ نظر سے پستی کی اس حد تک گری ہوئی ہوتی ہیں جس کا مشکل سے ہی کوئی انسان تصور کرسکتا ہے۔انھیں کھانے کے لیے دل کھول کر راشن دیا جاتا ہے۔پینے کے لیے خم شراب کا منہ ہر وقت کھلا رکھا جاتا ہے۔خرچ کرنے کے لیے پیسے بھی کافی دیے جاتے ہیں ۔پھر سانڈوں کی طرح انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس جہاں اور جس طرح چاہیں ،پوری کرتے پھریں ۔ حکومتیں خود بھی ان کے لیے قحبہ خانے تیار رکھتی ہیں ،قوم کی لڑکیوں میں بھی یہ جذبہ پیداکیا جاتا ہے کہ وہ ملک وقوم کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کی خاطر اپنے جسم رضا کارانہ طور پر پیش کرنے کو قومی ایثار اور سرمایۂ افتخار سمجھیں ۔ اور اس پر بھی جب ان انسانی نروں کے بھڑکے ہوئے جذبات ٹھنڈے نہیں ہو سکتے تو ان کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے کہ انسانی گلے میں جہاں بھی مادائیں ان کو نظر آئیں ، ان سے’’بزور‘‘ یا’’بزر‘‘ ان کے جسم خریدلیں یا چھین لیں ۔ اس طرح جن فوجوں کوپالا گیا ہو،خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ جب وہ دشمنوں کے ممالک میں فاتحانہ داخل ہوتی ہوں گی، تو وہاں ان کی شہوانی ضروریات کتنی بڑھ جاتی ہوں گی اور کس قیامت خیز صورت میں وہ پوری کی جاتی ہوں گی۔
اسلامی فوج کی اخلاقی تربیت
اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ ایسی فوجوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کا حل اسلام کیسے بتا سکتا ہے ۔انھیں مغرب ہی کے مادّہ پرستانہ اخلاق نے پیداکیا ہے اور ان کے شرم ناک مسائل کا حل بھی وہی پیش کرسکتا ہے۔اسلام جن فوجوں کو تیار کرتا ہے وہ سیاسی و معاشی جغرافیے کے اوراق پھاڑنے اور جوڑنے کے لیے تیار نہیں کی جاتیں ، بلکہ صرف اس لیے تیار کی جاتی ہیں کہ دنیا اگر خدا کی اطاعت سے پھری ہوئی ہو اور دعوت وتبلیغ سے راہ راست پر نہ آئے تو اسے بزور شمشیر اتنا بے زور کردیا جائے کہ و ہ کم ازکم فتنہ وفسادسے تو باز آجائے۔ اس متعین مقصود کے لیے جو فوجیں جہاد کرتی ہیں ،ان کا جہاد فی سبیل النفس نہیں بلکہ فی سبیل اﷲ ہوتا ہے اور وہ میدانِ جنگ میں بھی اسی جذبۂ عبادت کے ساتھ جاتی ہیں جس کے ساتھ وہ صحن مسجد میں قدم رکھتی ہیں ۔پھر اس میدان میں ان کو اُتارنے سے پہلے تزکیۂ نفس اور تطہیرِ اخلاق کے ایک پورے کورس سے انھیں گزارا جاتا ہے۔انھیں خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی سرکوبی کا کام سکھانے کے ساتھ یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو،اگروہ خدا سے پھرا ہوا ہو، کس طرح زیر کریں اوردوسروں کو احکا م الٰہی کا مطیع بنانے سے پہلے خود اپنے آپ کو کس طرح خدا کا مطیع بنائیں ۔انھیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں قدم قدم پر خدا کو یاد کرتے ہوئے بڑھیں ،عین لڑائی کی حالت تک میں نماز اپنے وقت پر ادا کریں اور دن ان کے گھوڑے یا ٹینک کی پشت پر گزریں تو راتیں مصلے پر۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی تربیت یافتہ فوج جو ایک پاکیزہ اخلاقی مقصد کے لیے لڑ ے اور اپنے عقیدے کے مطابق زمانۂ جنگ کو زمانۂ عباد ت سمجھتی ہوئی رقبۂ جنگ میں رہے،اس کی شہوانی ضروریات موجودہ فوجوں کی ضروریات جیسی نہیں ہوسکتیں اورنہ وہ اپنی ان ضروریات کو پورا کرنے میں ان فوجوں کی طرح آزادی کی خواہش مندہوسکتی ہے۔
اگر چہ بعض روایات کے مطابق زمانۂ جنگ میں نبی ﷺ نے مُتعہ کو جائز رکھا تھا (جسے عرب میں پہلے جائز سمجھا جاتا تھا) لیکن یہ بات ثابت ہے کہ بہت جلدی آپؐ نے اس کو ممنوع قرار دے دیا۔({ FR 2179 })
لونڈیوں سے تمتع کا معاملہ
اس میں شک نہیں کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوئی ہوں ،اُن سے تمتع کرنے کی اجازت اسلام میں دی گئی ہے،مگر سخت جاہل ہے وہ شخص جس نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ جس طرح آج کل ناخدا ترس فوجیں غنیم کے ملک میں گھسنے کے بعد عورتوں کو آزادانہ پکڑتی پھرتی ہیں اور جہاں جس سپاہی کو جو عورت مل جاتی ہے، وہ اس سے زنا کرڈالتا ہے ،ایسی ہی اجازت اسلام نے بھی اپنی فوجوں کو دے دی ہے۔ دراصل یہ اجازت چند شرائط کے ساتھ ہے:
اوّل تو عورتوں کا پکڑنا فی نفسہٖ مقصود کی حیثیت نہیں رکھتا کہ خواہ مخواہ فوج کی شہوانی ضروریات پوری کرنے کی خاطر دشمن قوم کی عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ لایا جائے، بلکہ عہدِ نبویؐ اور زمانۂ خلافت راشدہ کی نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں جب کبھی گرفتار ہوں گی،دو ہی صورتوں میں ہوں گی۔ ایک اس صورت میں جب کہ وہ دشمن کے لشکر میں ہوں ۔اس صورت میں جس طرح لشکر کے مرد گرفتار ہوں گے،اسی طرح عورتیں بھی گرفتار کرلی جائیں گی۔ دوسرے اس صورت میں جب کہ کوئی شہری آبادی اسلامی فوج کا مقابلہ کرے اور عنوۃً (by storm) فتح ہو۔ اس صورت میں اسلامی فوج کے کمانڈر کو حق ہے کہ ضرورت سمجھے تو پوری آبادی کو گرفتار کرلے۔ نیز اس صورت میں جو عورتیں اور بچے ایسے رہ جائیں جن کے سرپرست مرد مارے جاچکے ہوں ،ان کو بھی اسلامی فوج اپنے چارج میں لے لے گی۔
پھر جو عورتیں ان صورتوں میں سے کسی صورت میں فوج کے قبضے میں آجائیں ،انھیں کوئی سپاہی اس وقت تک ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک کہ اسلامی حکومت اس امر کا فیصلہ نہ کرلے کہ انھیں لونڈیاں بنا لینا ہے،اورجب تک کہ ان کو فوج میں باقاعدہ تقسیم نہ کردیا جائے۔ اور یہ فیصلہ صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب کہ غنیم سے فدیے پر، یا اسیرانِ جنگ کے تبادلے پر کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔
اس طرح جو عورت حکومت کی جانب سے کسی مرد کی مِلک میں باقاعدہ دے دی گئی ہو، اس پرصرف وہی ایک مرد تصرف کرسکے گا، اور اس کے لیے بھی قانون یہ ہے کہ استبرائِ رحم کی خاطر وہ اس وقت تک صبر کرے جب تک کہ اس عورت کو ایک مرتبہ حیض نہ آ جائے۔ یہ اس غرض کے لیے ہے تاکہ اس امر کااطمینان ہوجائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اور اگر حاملہ ہو تو پھر وضع حمل تک اس کو صبر کرنا چاہیے۔اس دوران میں وہ اس سے مباشرت کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پھر جو عورت اس طریقے سے کسی شخص کی ملک میں دی گئی ہو،وہ اگر اس سے تمتع کرے تو جو اولاد اس کے بطن سے پیدا ہوگی ،وہ اس شخص کی جائز اولاد قرار پائے گی اور اس کی وارث ہوگی، نیز اولاد کی ماں بن جانے کے بعد پھر وہ شخص اس عورت کو بیچنے کا مجاز نہ رہے گا، اور اس کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہوجائے گی۔
یہ ہے جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں کے بارے میں اسلام کا اصل قانون۔اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام حالتِ جنگ میں اپنی فوجوں کی شہوانی ضروریات پوری کرنے کے لیے اخلاقی قیود میں کسی قسم کی ڈھیل پیدا کرتا ہے۔اس کے برعکس اسلام تو ان پر یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ جائز تعلق کے مواقع میسر آنے تک بہرحال وہ ضبطِ نفس سے کام لیں ، خواہ ایسا موقع میسر آنے میں کتنی ہی مدت لگ جائے ۔
عفت کی حفاظت اور چھٹی کا حق
دوسری طرف احادیث وآثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کمزوریوں کا لحاظ کرتے ہوئے یہ دیکھنا بھی اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ اس کے سپاہی زیادہ مدت تک اپنی عورتوں سے علیحدہ رہ کر،اور ان کی عورتیں زیادہ دیر تک اپنے مردوں سے جدا رہ کر کہیں بداخلاقیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔ یہی غرض تھی جس کی خاطر نبی ﷺ نے فرمایا:
حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ ({ FR 1937 })
’’مجاہدین کی بیویاں پیچھے رہنے والے مردوں کے لیے ویسی ہی حرام کی گئی ہیں جیسی خود اُن کی مائیں اُن پر حرام ہیں ۔‘‘
اور یہ کہ:
مَا مِنْ رَجُلٍ مِنْ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنْ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ فَيَخُونُهُ فِيهِمْ إِلَّا وُقِفَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَأْخُذُ مِنْ عَمَلِهِ مَا شَاءَ فَمَا ظَنُّكُمْ({ FR 1938 })
’’پیچھے رہ جانے والے مردوں میں سے جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے بال بچوں میں اس کا جانشین ہو اور پھر وہ ان کے معاملے میں اس کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کرے ،وہ قیامت کے روز کھڑا کیا جائے گا اور اس مجاہد کو حق دیا جائے گا کہ اس شخص کے عمل میں سے جو کچھ چاہے لے لے۔پھر تمھارا کیا گمان ہے کہ وہ اس کے پاس کچھ چھوڑ دے گا؟‘‘
اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے مدینے کے دو خوب صورت نوجوانوں کو صرف اس لیے شہر سے منتقل کردیا کہ آپ نے بعض عورتوں کی زبان سے ان کے حسن کی تعریف سن لی تھی اور آپ کو اندیشہ ہوگیا تھا کہ کہیں یہ چیزان عورتوں کے حق میں فتنہ نہ بن جائے جن کے شوہر جہاد پر گئے ہوئے ہیں ۔ اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اعلان کردیا تھا کہ جو شخص کسی عورت سے تشبیب({ FR 1845 }) کرے گا،اس کو درّے لگائے جائیں گے۔({ FR 2055 }) اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے جب ایک مرتبہ ایک مجاہد کی بیوی کو اپنے شوہر کے فراق میں مشتاقانہ اشعار گاتے ہوئے سنا تو آکر پہلاحکم جو آپ نے جاری کیا وہ یہ تھا کہ آئندہ سے سپاہیوں کو اتنی طویل مدت تک ان کی بیویوں سے جدا نہ رکھا جائے جس سے ان کے کسی بداخلاقی میں ملوث ہوجانے کا احتمال ہو۔ بالفاظِ دیگر فوج میں رخصت (furlough) کا طریقہ اسلامی حکومت میں جاری ہی اس غرض کے لیے کیا گیا تھا کہ حکومت اپنے سپاہیوں اور ان کی عورتوں کے اخلاق کی حفاظت کرنا چاہتی تھی۔
کنیزوں سے تمتع اور قحبہ گری میں فرق
رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا کنیزوں کے استعمال کی اجازت ایک طرح کی جائز کردہ قحبہ گری نہ تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو آپ قحبہ گری کے معنی نہیں جانتے یا کنیزوں سے تمتع کا اسلامی قانون آپ کو معلوم نہیں ہے۔ قحبہ گری اس کو کہتے ہیں کہ ایک مرد کسی عورت سے اس کا جسم کرایے پر مستعار حاصل کرے۔ اور آج کل کی ’’مہذب‘‘ سوسائٹی میں ایک نئی قسم کی قحبہ گری بھی پیدا ہوگئی ہے جسے’’شوقیہ قحبہ گری‘‘ (Amateurish Prostitution)کہتے ہیں ،جس میں یہی عارضی تعلق باقاعدہ طے شدہ کرایے کے معاوضے میں نہیں بلکہ ہدیوں اور تحفوں کے بدلے میں قائم ہوتا ہے اور سوسائٹی میں خاتون محترمہ کی عزت بدستور برقرار رہتی ہے۔رہا کنیزوں سے تمتع کا اسلامی قانون،تو وہ میں اوپر بیا ن کرچکا ہوں ۔دونوں کا مقابلہ کرکے آپ خود دیکھ لیں ۔ (ترجمان القرآن، مارچ جون۱۹۴۵ء)