فَلَہٗ مَا سَلَفَکی تفسیر

تفہیم القرآن میں حرمتِ سود والی آیتفَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ({ FR 2237 }) (البقرہ:۲۷۵) پر حاشیہ لکھتے ہوئے جناب نے جو استدلال فرمایا ہے،اس پر مجھے اطمینان نہیں ہے۔آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ وہ شخص جو پہلے کے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہا ہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ سود کے حرام ہونے پر صحابہ کرامؓ نے کیا عمل فرمایا؟اگر انھوں نے اخلاقی حیثیت کی بِنا پر مستحقین کو مال واپس کیا ہے تو آپ کا استدلال صحیح ہوسکتا ہے،نیز اگر صحابہؓ کا عمل ایسا ثابت ہے تو آپ کو تفہیم القرآن میں اس کا حوالہ دینا چاہیے۔
جواب

اس معاملے میں قرآن کے الفاظ پر شاید آپ نے توجہ نہیں کی۔ فَلَہٗ مَا سَلَفَ کہنے کے بعد وَاَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ جو فرمایا گیا ہے اس کا آخر مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ اس کے معنی یہی تو ہوسکتے ہیں کہ جہاں تک دنیوی عدالت کا تعلق ہے، حرمتِ سودکا حکم نازل ہونے سے پہلے کے مقدمات اس میں پیش نہیں کیے جائیں گے، مگر جہاں تک اُخروی عدالت کا تعلق ہے،اﷲ نے کھائے ہوئے سود کی معافی کا اعلان نہیں کردیا ہے، بلکہ اس کے مقدمے کو زیر تجویز رکھا ہے۔اگر وہ اپنی سود سے جمع کی ہوئی دولت کو اپنے لیے عیش وراحت اور شان وشوکت کا ذریعہ بناے تو اس کی حیثیت ایسے شخص کی سی ہوگی جو اپنے پچھلے گناہوں پر کوئی ندامت نہیں رکھتا۔اس لیے اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا معاملہ بھی اس شخص سے مختلف ہوگا جو اپنے پچھلے گناہوں پرنادم ہواور اپنی ظلم وجور سے کمائی ہوئی دولت کو اپنے عیش پر خرچ کرنے کے بجاے خلق اﷲ کی خدمت پر صرف کرے، تاکہ اس کے اس جرم کی کسی حد تک تلافی ہوجائے جو وہ حالت ِ جاہلیت میں کرتا رہا ہے۔ اس معاملے کے متعلق اگر کوئی نظائر ہمیں تاریخ میں نہ بھی ملیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حکم کے منشا کی طرف جو صریح اشارہ قرآن شریف کررہا ہے، اس سے ہم آنکھیں بند کرلیں ۔ (ترجمان القرآن، جنوری،فروری۱۹۴۵ء)