جواب
قاضی یقیناً یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کے اولیا کو دیت ادا کرنے پر مجبور کرے۔حمل بن مالک والی روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبیﷺ نے اولیاے قاتل کو خطاب فرمایا: قُوْمُوْا فَدُوْہ({ FR 2051 }) ’’اُٹھو اور دیت ادا کرو۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ دیت ادا کرنے کی ذمہ داری میں قاتل کے ساتھ اس کے اولیا بھی شریک ہیں ۔ البتہ اس امر میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ دیت ادا کرنے کے معاملے میں قاتل کے اولیا (یا عاقلہ) کن لوگوں کو قرار دیا جائے گا؟شافعیہ کے نزدیک’’عاقلہ‘‘ سے مراد ورثا یاعصبہ ہیں ،اور حنفیہ کے نزدیک وہ تمام لوگ عاقلہ ہیں جو زندگی کے معاملات میں ایک شخص کے پشت پناہ اور سہارا بنتے ہوں ،خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا ہم پیشہ برادری والے،یا وہ لوگ جو عہد وپیمان کی بنا پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند ہوں ۔شافعیہ نے جو راے دی ہے وہ صرف اس معاشرے کے لیے موزوں ہے جس میں قبائلی سسٹم رائج ہو۔ لیکن حنفیہ کی راے ان معاشروں میں بھی چل سکتی ہے جن میں قبیلے کے بجاے دوسرے نسبی یا معاشی یا تمدنی روابط کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے پشت پناہ بنتے ہوں ۔حنفیہ کی راے کے مطابق ایک سیاسی پارٹی بھی اپنے ایک فرد کی عاقلہ بن سکتی ہے،کیوں کہ اس کے ارکان زندگی کے اہم معاملات میں ایک دوسرے کے حامی ومددگار ہوتے ہیں ، اور بڑی حد تک ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں شریک سمجھے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب معاشرے کی بنیادیں قبائلی نظام کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوگئیں تو حضرت عمرؓ نے ایک فوجی کی دیت کا ذمہ دار اس کے پورے لشکر کو ٹھیرایا۔ چنانچہ فتح القدیر میں ہے:
فَإِنَّهُ لَمَّا دَوَّنَ الدَّ وَاوِينَ جَعَلَ الْعَقْلَ عَلَى أَهْلِ الدِّيْوَانِ، وَكَانَ ذَلِكَ بِمَحْضَرٍ مِنْ الصَّحَابَةِ ۔- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ۔ مِنْ غَيْرِ نَكِيرٍ مِنْهُمْ ({ FR 1933 }) ’’حضرت عمرؓ نے جب عسکری نظام قائم کیا تو دیت کو پورے اہل لشکر پر عائد کیا۔آپؓ کا یہ فعل صحابہؓ کی ایک مجلس میں انجام دیا گیا اور انھوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔‘‘
رہا آپ کا یہ سوال کہ اولیا یا عاقلہ پر دیت عائد کرنا گناہ گار کی سزا بے گناہوں کو دینے کا ہم معنی تو نہیں ہے؟تو اس کا جواب آپ خود پالیتے اگر اس امر پر غور فرماتے کہ ایک شخص اجتماعی زندگی کے اندر رہتے ہوئے قتل جیسے اجتماع کش فعل کا ارتکاب بالعموم اپنے حمایتیوں کے بل بوتے پر ہی کیا کرتا ہے۔اگر وہ لوگ جن کی حمایت اور پشتیبانی پر وہ بھروسا رکھتا ہے،یہ جا ن لیں کہ اس کی ایسی حرکات کی ذمہ داری میں وہ بھی شریک ہوں گے،تو اسے قابو میں رکھنے کی خود کوشش کریں گے اور اسے ایسی چھوٹ نہ دیں گے کہ وہ دوسروں کی جانیں لیتا پھرے۔ کیا عجب ہے کہ دیت کے ذمہ دار اولیا کے لیے ’’عاقلہ‘‘ کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہو۔عقل کے معنی آپ جانتے ہی ہیں کہ روکنے اور باندھنے کے ہیں ۔شاید ابتداء ً اس لفظ کو اختیار کرنے میں یہی مناسبت پیش نظر رہی ہو کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کام یہ ہے کہ آدمی کو قابو میں رکھیں اور ایسا بے قابو نہ ہونے دیں کہ وہ قتل وغارت کا ارتکاب کرنے لگے۔ (ترجمان القرآن، جون، جولائی ۱۹۵۲ئ)