جواب
اوّل تو دین میں اصل چیز کتاب اﷲ اور سنتِ رسول اﷲ ہے،نہ کہ بزرگوں کے اقوال وافعال۔ دوسرے خود بزرگوں کے اقوال وافعال کے متعلق جو مواد تذکروں میں ملتاہے، وہ بھی ایسا مستندنہیں ہے کہ اس کی بِنا پر یہ اطمینان کیا جاسکے کہ واقعی ان بزرگوں کے اقوال وافعال وہی تھے جو ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ۔ ایسی چیزوں کو ماخذ مان کر ان کی پیروی کرنا میرے نزدیک سخت بے احتیاطی ہے۔ محفوظ طریقہ وہی ہے جو ہمیں قرآن وحدیث سے ملتا ہے،جس کے دورِ صحابہؓ اور دورِ تابعین میں رائج ہونے کا ثبوت ملتا ہے، اور جس کو اُمت کے محدثین اور فقہا نے منقّح اور مدوّن کرکے رکھ دیا ہے۔لہٰذا جو شخص دین کی یقینی اور قابل اعتماد راہ پر چلنا چاہتا ہو،اس کو اس محفوظ طریقے سے تجاوز کا کبھی خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔کیوں کہ باہر جو کچھ ہے، وہ کم ازکم خطرے سے تو خالی نہیں ہے۔
اب اسی معاملے کو لیجیے جس کے متعلق آپ سوال کررہے ہیں ۔ جن تذکروں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ فلاں فلاں بزرگوں نے یہ کام کیا تھا،ان کی روایات کا حدیث کی کسی ضعیف سے ضعیف روایت کے مقابلے میں بھی آخر کیاپایہ ہے؟کس سند کی بِنا پر یہ اعتماد یا گمان غالب ہوسکتا ہے کہ ان بزرگوں نے واقعی ایسا کیا تھا؟فرض کیجیے کہ حقیقت میں انھوں نے ایسا نہ کیا ہو۔ اس صورت میں ان بے سند روایات کی پیروی کرکے ہم آخرت میں کس چیز کا سہارا لے کر جواب دہی کرسکیں گے؟ اگر عاقبت کی ہمیں فکر ہو اور ہم خود اپنی خیر چاہتے ہوں تو یہ کام کرنے سے پہلے ہم کو دین کے محفوظ طریقے کی طرف رجوع کرکے اطمینان کرلینا چاہیے کہ وہاں کسب فیض یا قبولیت دعا کے لیے یہ راستہ بتایا گیا ہے یا نہیں ؟ صحابہؓ نے خود نبیﷺ کے مزار مبارک پر کبھی چلہ کھینچا یا مراقبہ کیا؟تابعین نے کبھی کسی صحابی کی قبر پر یہ کام کیا؟ فقہا و محدثین میں سے کسی نے اس کو مشروع طریقہ بتایا؟ سب سے بڑھ کر خود اﷲ میاں نے قرآن میں کہیں یہ تعلیم دی کہ قبروں پر حصول فیض یا استجابت دعا کے لیے جائو؟ یا اللّٰہ کے رسولﷺ نے اس طریق کار کی طرف کوئی اشارہ کیا؟ ان ذرائع سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہو تو اطمینان کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا ہے، ور نہ یہ بالکل غلط نہ سہی، مشتبہ توماننا ہی پڑے گا۔ ایسامشتبہ کام کرکے کیا میں یہ خطرہ مول نہ لوں گا کہ شاید آخرت میں وہ غلط ثابت ہو اور میں اﷲ تعالیٰ کو اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکوں کہ جب دین کی حقیقی راہ معلوم کرنے کے قابل اعتماد ذرائع موجود تھے تو میں مشتبہ ذرائع کی طرف کیوں گیا؟ ( ترجمان القرآن ، اکتوبر،نومبر ۱۹۵۷ء)