جواب
آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے ایک مقام پر پیدا ہونے والے شکوک کی طرف مجھے توجہ دلائی۔ دراصل میں نے سائل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ’’رد و بدل‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو اس کے سوال میں درج تھے۔ یہ الفاظ بجاے خود تو ضرور شک پیدا کرنے والے ہیں ، لیکن میں نے جس عبارت میں ان کو استعمال کیا ہے، اس کو بغور پڑھا جائے تو اس سے کوئی شک پیدا نہیں ہوسکتا۔ میری اصل عبارت یہ ہے:
’’قرآنی احکام کے جزئیات ہوں یا ثابت شدہ سنتِ رسول کے جزئیات، دونوں کے اندر صرف اسی صورت میں اور اسی حد تک رد و بدل ہوسکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ کسی رد و بدل کی گنجائش دیتے ہوں ، یا کوئی دوسری نص ایسی ملتی ہو جو کسی مخصوص حالت کے لیے کسی خاص قسم کے احکام میں رد و بدل کی اجازت دیتی ہو۔ اس کے ماسوا کوئی مومن اپنے آپ کو کسی حال میں بھی خدا اور رسول کے احکام میں رد و بدل کر لینے کا مختار و مجاز تصور نہیں کرسکتا۔‘‘
اس عبارت میں رد و بدل سے مراد آزادانہ رد و بدل نہیں ہے، بلکہ حکم کے ایک مفہوم کو چھوڑ کر دوسرا مفہوم لینا ہے، جب کہ نص کے الفاظ میں دونوں مفہوموں کی گنجائش پائی جاتی ہو، یا کوئی دوسری نص ایسی ملتی ہو جو کسی مخصوص حالت کے لیے کسی خاص قسم کے احکام میں ترک و اختیار کی اجازت دیتی ہو۔
میں ان دونوں باتوں کی وضاحت کے لیے چند نظائر پیش کرتا ہوں :
دیکھیے، قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ ({ FR 2261 }) (البقرہ:۲۲۸) اس آیت میں قروء کے ایک مفہوم کو فقہا کے ایک گروہ نے اور دوسرے مفہوم کو دوسرے گروہ نے اختیار کیا، اور یہ ترک و اختیار اس بنا پر صحیح تھا کہ قروء کے لفظ میں دونوں مفہوموں کی گنجائش تھی۔
اسی طرح تیمم کے احکام بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ (النسائ:۴۳)کے الفاظ استعمال ہوئے تھے۔ ان کے بھی دو مفہوم ہوسکتے تھے جن میں سے ایک کو فقہا کے ایک گروہ نے اور دوسرے مفہوم کو دوسرے گروہ نے اختیار کیا۔ یہ بھی اس بنا پر درست تھا کہ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترک کرکے دوسرے کو اختیار کرنے کی اجازت دے رہے تھے۔
اب دوسری بات کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
سورئہ محمد میں اللّٰہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً ({ FR 2262 }) ( محمد:۴) اس میں جنگی قیدیوں کے ساتھ برتائو کی بظاہر دو ہی صورتیں تجویز کی گئی تھیں ۔ ایک احسان، دوسری فدیہ لیکن رسول اللّٰہ ﷺ کے عمل سے معلوم ہوا کہ احسان بلا فدیہ رہا کر دینے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور لونڈی غلام بنا کر حسن سلوک کرنے کی صورت میں بھی۔ یہ نظیر موجود نہ ہوتی تو احسان کا ظاہری مفہوم صرف یہی ہوسکتا تھا کہ جنگی قیدیوں کو فدیے کے بغیر ہی بطور احسان رہا کر دیا جائے۔
جنگ] بنو[ قریظہ کے موقع پر حضورﷺ نے مدینے سے جانے والے مجاہدین کو حکم دیا تھا کہ عصر کی نماز نہ پڑھنا جب تک بنی قریظہ کی بستی پر نہ پہنچ جائو۔ لیکن راستے میں دیر لگ گئی اور عصر کا وقت گزرنے لگا۔ اس موقع پر ایک گروہ نے نماز نہ پڑھی اور دوسرے گروہ نے پڑھ لی۔ پہلے گروہ نے نماز کو وقت پر ادا کرنے کے قرآنی حکم اور سنت کے تاکیدی احکام کو چھوڑ کر حضورؐ کی نص صریح پر عمل کیا جو اس خاص موقع ہی کے لیے ارشاد ہوئی تھی اور دوسرے گروہ نے حضورؐ کے ارشاد کا یہ مطلب لیا کہ عصر سے پہلے پہلے بنی قریظہ پہنچ جائو، اب چونکہ ہم وہاں نہیں پہنچ سکے ہیں اور نماز کا وقت گزرا جارہا ہے اس لیے ہم نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنے کے حکم عام پر عمل کریں گے۔ ان دونوں گروہوں کا معاملہ جب حضورؐ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے ان میں سے کسی گروہ کے عمل کو بھی غلط نہ قرار دیا، کیونکہ ہر ایک کے حق میں نص موجود تھی۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۷۶ء)