قرآن مجید میں قراء توں کا اختلاف

قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا، بعد میں اختلاف قرائ ت کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں صرف قریش کی زبان کی قرائ ت والا نسخہ محفوظ کر دیا گیا جو اب تک رائج ہے اور باقی جلا ڈالے گئے تو کیا اللّٰہ تعالیٰ نے باقی چھ حرفوں کی حفاظت نہیں کی اور انھیں ضائع ہو جانے دیا جب کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللّٰہ تعالیٰ نے لیا ہے؟
جواب

قرآن دراصل تو قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا اور ابتدائی حکم یہی تھا کہ اسی زبان میں اس کو پڑھا اور پڑھایا جائے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ بھی اسی کے بارے میں تھا لیکن ہجرت کے بعد حضورﷺ کی درخواست پر قریش کی زبان کے علاوہ عرب کی دوسری چھ بڑی زبانوں میں اس لیے قرآن نازل کیا گیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں اسلام قبول کرنے والوں کو اپنے اپنے علاقوں کے تلفظ اور محاورے کے مطابق اسے پڑھنے میں سہولت ہو۔
یہ ایک رعایت تھی جو وقتی طور پر اشاعت قرآن میں آسانی پیدا کرنے کی غرض سے دی گئی تھی۔ اس کو ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنا مقصود نہ تھا اور نہ اس کا منشا یہ تھا کہ قرآن عرب کی سات زبانوں میں دنیا تک پہنچایا جائے۔ لیکن بہرحال یہ امرواقعہ ہے کہ اس زمانے میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے جو رعایت دی گئی تھی وہ رسول اللّٰہ ﷺ کے عہد مبارک میں آخر وقت تک باقی رہی اور اسے منسوخ کرنے کا کوئی حکم نہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور نہ رسولِ اکرمؐ کی زبانِ مبارک سے سنا گیا۔ اس رعایت کو حضرت عثمان ؄ نے اس وقت منسوخ کیا جب یہ دیکھا گیا کہ سات زبانوں میں قرآن مجید کی مختلف قرائ تیں لوگوں کے لیے اور خصوصاً غیر عرب نومسلموں کے لیے، سخت فتنے کی موجب بن گئی ہیں ۔
اس لیے اُمت کو فتنے سے اور کتابِ الٰہی کو اختلاف سے محفوظ رکھنے کی خاطر امیر المؤمنین نے فیصلہ کیا کہ صرف قریش کی زبان میں قرآن پاک کے نسخے لکھوا کر دنیاے اسلام کے مراکز میں پھیلا دیے جائیں اور وہ تمام نسخے جلا ڈالے جائیں ({ FR 2065 }) جو دوسری چھ زبانوں کے مطابق لکھے گئے ہوں تاکہ کبھی کوئی دشمنِ دین قرآن میں شبہات پیدا کرنے کے لیے ان کو استعمال نہ کرسکے۔ ظاہر بات ہے کہ سات نازل شدہ حرفوں میں سے چھ کو منسوخ کر دینا ایک بہت بڑا اقدام تھا۔ اگر شریعت میں اس کی گنجائش نہ ہوتی تو نہ حضرت عثمانؓ ایسا اقدام کرسکتے تھے اور نہ پوری امت اسے قبول کرسکتی تھی۔
(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۷۵ء)