جواب
عنایت نامہ مع مضمون’’قرآن میں زنا کی سزا‘‘ پہنچا۔ آپ کے پہلے مضمون اور اس دوسرے مضمون کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں ، (اور میرے اس اظہار خیال پر آپ برا نہ مانیں ) کہ آپ آیات قرآن کی تأویل وتفسیر اور احکام شرعیہ کی تشریح میں وہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھتے جو ایک خدا ترس آدمی کو ملحوظ رکھنی چاہیے۔اگر آپ میری نصیحت مانیں تو میں دو باتیں بطور اُصول کے آپ کو بتا دوں ۔ایک یہ کہ آپ بطور خود اپنے نظریات قائم کرکے قرآن و سنت سے ان کے حق میں دلائل ڈھونڈنے کا طریقہ چھوڑ دیں اور اس کے بجاے قرآن و سنت سے جو تعلیم ملے اس کے مطابق نظریات قائم کیا کریں ۔ دوسرے یہ کہ قرآن وسنت سے کسی مسئلے کا استنباط کرتے وقت سلف کے مجتہدین ومفسرین ومحدثین کی تشریحات کو سرے سے نظر انداز نہ کردیا کریں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ ان میں سے ایک کی راے کو چھوڑ کر دوسرے کی راے قبول کرلیں ، لیکن ان میں سے کسی ایک کا آپ کے ساتھ رہنا اس سے بہتر ہے کہ آپ ان سب سے الگ اپنا مستقل مذہب بنائیں ۔ تفرد صرف اس صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب کہ آپ قرآن وسنت کے گہرے مطالعے سے اعلیٰ درجے کی محققانہ بصیرت بہم پہنچا چکے ہوں ( جس کی علامات آپ کی تحریروں میں مجھے نظر نہیں آتیں )، اور جس مسئلے میں بھی آپ اپنی متفرد راے ظاہر کریں ،اس میں آپ کے دلائل نہایت مضبوط ہوں ۔ان دو باتوں کو اگر آپ ملحوظ خاطر رکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ اس طرح کی غلطیوں سے محفوظ رہیں گے جو میں نے آپ کے مضامین میں پائی ہیں ۔
میرے لیے آپ کے مضامین پر مفصل تنقید کرنا تو مشکل ہے،البتہ جو نمایاں غلطیاں میں بیک نظر دیکھ سکا ہوں ،انھیں بیان کیے دیتا ہوں :
(۱)آپ کا یہ قول ایک حد تک صحیح ہے کہ قرآن میں چوری اور زنا کی جو سزا بیان کی گئی ہے،وہ انتہائی سزا ہے،کم سے کم سزا جج کے اختیار تمیزی پر موقوف ہے۔لیکن اس سے بڑی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ جب زنا کے لیے وہ شہادت بہم پہنچ جائے جو شرعاًضروری ہے،اور جب شرعی قواعد کے مطابق چوری کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر چوری اور زنا کی وہی حد جاری کرنی پڑے گی جو قرآن میں مقرر کردی گئی ہے۔اس صورت میں حد سے کم سزا دینے کا جج کو اختیار نہیں ۔البتہ کم تر درجے کی چوریاں کمتر درجے کی سزائوں کے قابل ہوں گی،اور ثبوت زنا کے بغیر اگر کمتر درجے کے فواحش شہادت یا قرائن سے ثابت ہوں گے تو ان پر کم تر درجے کی سزائیں دی جاسکیں گی۔
(۲)آپ نے اپنے اس مضمون میں بھی اپنی سابق غلطی کا اعادہ کیا ہے کہ الزانیۃ کے معنی’’فعل زنا کے مدد گار لوگ‘‘بیان کیے ہیں ، اور اس سے مراد’’دلال،دلالہ،پیغام رساں اور زانی وزانیہ کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے والے‘‘ لیے ہیں ۔ قرآن صریح طور پر اس معنی سے ابا کرتا ہے۔جس آیت میں زانی وزانیہ کی سزا بیان کی گئی ہے،اُس میں الزانی سے پہلے الزانیۃ کا ذکر ہے اور پھر دونوں کے لیے ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے کہ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ( النور:۲ ) ’’دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو‘‘لیکن آپ نے اس پر بھی اپنی راے کو قرآن کے مطابق بدلنے کے بجاے قرآن کے حکم کو اپنی راے کے مطابق بدلنے کی کوشش فرمائی۔ یہ بڑی بے جا جسارت ہے جس سے پرہیز واجب تھا۔
(۳) مشرک اور مشرکہ کے جو معنی آپ نے بیان کیے ہیں (یعنی مشرکہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ دوسرے کو حظ اُٹھانے میں شریک کرے اور مشرک وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر عورت کو حظ حاصل کرنے میں شریک کرے) یہ بالکل ہی ایک آزادانہ معنی آفرینی ہے جس کے لیے نہ لغت میں کوئی بنیاد پائی جاتی ہے،نہ اصطلاح میں ،اور نہ کوئی قرینہ ہی ایسا موجود ہے جس کی بنا پر ایسے دوراز قیاس وگمان معنی لیے جاسکیں ۔آیت اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً… میں لَایَنْکِحُ سے مراد لَایَلِیْقُ بِہِ أَنْ یَنْکِحَ ہے۔یعنی زانی ایک ایسا بدکار ہے کہ وہ کسی عفیفہ مومنہ سے نکاح کرنے کے لائق نہیں ہے،اس کے لیے اگر موزوں ہوسکتی ہے تو ایک بدکار یا مشرکہ عورت ہی ہوسکتی ہے،اور زانیہ ایک ایسی فاسقہ وفاجرہ ہے کہ وہ کسی باعصمت مومن کے لیے موزوں نہیں ہے،وہ اگر نکاح کے لائق ہے تو ایک بدکار یا مشرک مرد کے لیے ہوسکتی ہے۔اس سے مقصود فعل زنا کی قباحت و شناعت واضح کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ صالح اہل ایمان کو معروف بالزنا مردوں اور عورتوں سے مناکحت کے تعلقات نہ قائم کرنے چاہییں ۔
(۴) یہ ایک عجیب بات میں نے دیکھی کہ آپ خود تسلیم فرما رہے ہیں کہ خلفائے اربعہ اور رسول اﷲ ﷺ نے زنا کی انتہائی حالتوں میں (زانی محصن کی آپ تصریح نہیں کرتے)مجرمین کو رجم کی سزا دی ہے،مگر پھر بھی آپ یہ کہنے میں تأمل نہیں کرتے کہ ’’رجم آج کل کے تمدن کے خلاف ہے اور کوئی انسانی طبیعت رجم کو گوارا نہیں کرسکتی۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ان الفاظ پر آپ خود اگر کبھی غورکریں گے تو آپ کو ندامت محسوس ہوگی۔کیا کوئی انسانی طبیعت رسول اﷲ ﷺ سے بھی زیادہ پاکیزہ اور رحیم وشفیق ہوسکتی ہے؟اور کیا ہم مسلمانوں کے لیے آج کل کا تمدن(ایٹم بم والا تمدن !)کوئی معیارِ حق ہے؟
یہ چند معروضات میں صرف اس لیے پیش کررہا ہوں کہ آپ نے خود مجھ کو اپنے مضامین پر تنقید کی دعوت دی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ جب اتنا بڑا دل رکھتے ہیں کہ تنقید کی خود دعوت دیتے ہیں تو آپ ضرور میری ان باتوں کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں گے اور اگر حق معلوم ہوں گی تو قبول کریں گے۔ (ترجمان القرآن، جنوری،فروری ۱۹۵۱ء)