ہمارے ایک رکن جماعت نے (جو حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں ) ایک اجتماع میں کہا کہ محترم مولانا نے تفہیم میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص موسم حج میں حج سے پہلے عمرہ کرے تو وہ قربانی دے۔ لیکن مکہ مکرمہ میں عمرے کے بعد کوئی قربانی نہیں دی جاتی۔ اس میں انھوں نے تفہیم القرآن جلد اول، سورئہ البقرہ، آیت۱۹۶ کے ترجمے کا حوالہ دیا ہے جو درج ذیل ہے:
’’...تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدور قربانی دے...‘‘ میں نے انھیں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی کہ یہ تو آیت کا ترجمہ ہے اور اس کا مفہوم یہ نہیں کہ عمرے کے فوراً بعد ہی قربانی دی جائے، بلکہ مراد یہ ہے کہ تمتُّع اورقِران میں قربانی واجب ہے۔ حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں جو وضاحت آپ نے حاشیہ۲۱۳ کے آخر میں فرمائی ہے اس کی طرف بھی ان کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ بیان واضح نہیں ۔ بہرحال اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مسئلے کی مزید وضاحت فرمائیں تاکہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔
جواب
سورئہ البقرہ آیت ۱۹۶ میں تین حکم الگ الگ بیان فرمائے گئے ہیں ۔ (۱) جب آدمی نے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھ لیا ہو اور پھر کوئی مانع ایسا پیش آگیا ہو کہ حرم تک پہنچنا ممکن نہ رہا ہو تو اسے ہدی بھیجنی چاہیے اور اس وقت تک احرام سے باہر نہ آنا چاہیے جب تک ہدی کی قربانی نہ ہوچکی ہو۔ (۲) اگر آدمی کسی بیماری کی وجہ سے حجامت کرانے پر مجبور ہو جائے تو حجامت کرالے اور فدیہ ادا کر دے۔ (۳) اگر کوئی امر مانع پیش نہ آیا ہو اور آدمی حرم پہنچ گیا ہو تو تمتّع({ FR 2145 }) یا قِران({ FR 2146 }) کرنے کی صورت میں اسے قربانی دینی ہوگی۔ البتہ اِفراد({ FR 2223 }) کرنے کی صورت میں اس پر کوئی دم واجب نہ ہوگا۔
(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۷۷ء)