زید ایک شخص کوکچھ رقم امانت کے طورپررکھنے کودیتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اس بات کی اجازت بھی دیتا ہے کہ اس رقم کو کام میں لگایا جاسکتا ہے۔فقط اتنی شرط لگاتاہے کہ رقم محفوظ رہے اورجس کے پاس رقم امانت ہے وہ سال بسال اس کی زکوٰۃ دیتا رہے۔کیا شرعاً یہ شکل صحیح ہے؟اور اگریہ شکل صحیح نہ ہوتو کوئی اور شکل صحیح ہوسکتی ہے؟
جواب
آپ نے جو صورت لکھی ہے وہ سرے سے امانت رکھنے کا معاملہ ہے ہی نہیں بلکہ قرض کا معاملہ ہے۔ جب یہ اجازت دی گئی کہ رقم لینے والا اس کواپنے کاموں میں خرچ کرسکتا ہے اور یہ کہ رقم ہرحال میں محفوظ رہنی چاہیے تواب وہ رقم امانت نہیں رہی بلکہ قرض ہوگئی۔ اب زکوٰۃ ادا کرنے کی شرط پرغورکرنا ہے۔ اگر شرط یہ ہوکہ رقم لینے والا اس کی زکوٰۃ اپنی طرف سے یعنی اپنے پاس سے ادا کرتارہے اور قرض کی رقم جوں کی توں باقی رہے تو یہ سود ہے۔
مثلاً زید نے خالد کو ایک ہزار روپے دیے اور شرط یہ لگائی کہ تم کو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور میری رقم ایک ہزار محفوظ رہےگی۔ تمہیں مجھے ایک ہزار روپے واپس کرنے ہوں گے تو یہ معاملہ صریح سودی معاملہ ہوگا۔ آپ کا یہ سوال کہ اگر یہ شکل شرعاً صحیح نہ ہو تو صحیح شکل کیاہوگی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے دوباتیں سمجھ لیجیے۔ ایک یہ کہ کسی ضرورت مند کو قرض دینا ایک احسان ہے جس کا اجربہت ہے۔اس لیے مقروض پرقرض واپس کرنے کے علاوہ کوئی ذمہ داری ڈالنا روح انسانیت کے خلاف ہے۔ دوسری بات یہ کہ قرض میں دیے ہوئے روپے اگر ایک نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہوں تو قرض دینے والے پران کی زکوٰۃ کی ادائیگی اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ روپے واپس مل جائیں۔ اپنے پاس موجود روپیوں سے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا قرض دینے والے پرواجب نہیں ہے۔اس لحاظ سے بھی مقروض پرزکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ڈالنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔اور اگر کسی وجہ سے یہ ضروری ہوتواس کی صحیح شکل یہ ہوسکتی ہے کہ قرض دار،قرض خواہ کی طرف سے جو زکوٰۃ ادا کرے وہ قرض کی رقم سے منہاکردی جائے۔
اوپر والی مثال کو سامنے رکھ کر سمجھیے کہ زید نے خالد کو ایک ہزار روپے دیے اور دوسال میں خالد نے اس کی زکوٰۃ پچاس روپے اداکی تواب خالد کے ذمہ زید کے ساڑھے نو سوروپے رہ گئے، زید اس سے ایک ہزار روپے کامطالبہ نہیں کرسکتا۔ (اکتوبر۱۹۷۳ء، ج۵۱،ش۴)