ہمارے قصبے میں ایک عیدگاہ ہے، وہ مسجد نما ہے، اس کے چاروں طرف عیدگاہ کی زمین ہے، ایک طرف کی زمین لب سڑک ہے۔ متولیان عیدگا ہ اس میں دکانیں بنوانا چاہتے ہیں، مگر عیدگاہ فنڈ میں روپیہ نہیں ہے اور عیدگاہ کی مرمت اوردیگر ضروریات کے پیش نظر دکانیں بنوانا ضروری سمجھتے ہیں اوراس کے لیے ایک متمول مسلمان سے اس شرط پر معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دکانیں اپنے روپے سے بنوادیں اور پہلے ہی ان سے دکانوں کا کرایہ طے ہوجائے۔ پھر جب دکانیں بن جائیں تو وہ ان دکانوں کو من مانے کرایے پر اٹھائیں اورجب ان کی لگی ہوئی رقم وصول ہوجائے تو عیدگاہ کی دکانیں ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت اگر ان سے دس روپے یا پندرہ روپے کرایہ طے ہوتا ہے تووہ بیس یا پچیس یا زائد میں اٹھائیں توزائد کرایہ ان کا نفع ہوگا جس کی خاطر وہ تیارہوں گے۔ اس صورت میں شرعی مسئلہ کیا ہے؟ یہ جائز معاملہ ہوگا یا ناجائز؟
جواب
ذیل کی چند اصولی باتیں سامنے رکھیے تو اس معاملہ کا شرعی حکم معلوم کرنا آسان ہوجائے گا۔
۱- معدوم یعنی جو چیز موجود نہ ہواس کی بیع ناجائز ہے اور جس طرح بیع ناجائز ہے اسی طرح اس کا اجارہ بھی ناجائز ہے۔
۲- قرض اور بیع یا قرض اور اجارے کو ملاکر معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
۳- قرض دے کراس سے کوئی نفع حاصل کرنا حرام ہے۔
ان اصولوں کو سامنے رکھ کر غورکیجیے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے جس معاملے کے بارے میں سوال کیا ہے وہ ان تینوں اصولوں کے خلاف ہے۔ جو دکانیں ابھی موجود نہیں ہیں ان کو کرایہ پر دینے کا معاملہ ایک ایسی شے کا معاملہ ہوگا جو معدوم ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ متمول مسلمان جو رقم لگائیں گے اس کی حیثیت قرض ہی کی ہوگی۔ لہٰذا یہ معاملہ دوسرے اصول کے بھی خلاف ہوگا۔یعنی قرض کے معاملہ میں اجارہ بھی داخل ہوگا۔ جو غلط ہے۔ اور جیساکہ آپ نے لکھا ہے وہ متمول مسلمان اس معاملے پر اس لیے تیارہوں گے کہ متولیوں کو کرایہ کم دیں اور من مانے کرایے پران دکانوں کا دوسروں سے معاملہ کرکے اپنی قرض دی ہوئی رقم پر نفع حاصل کریں، لہٰذا یہ معاملہ تیسرے اصول کی رو سے بھی حرام ہوگا۔ (اگست ۱۹۶۹ء،ج ۴۳،ش۲)