بینکوں اوربیمہ کمپنیوں کے قومیائے جانے کے بعد مندرجہ ذیل سوالا ت ذہن میں ابھر کر سامنے آتےہیں، ان کے جوابات مطلوب ہیں۔
۱- بینکوں کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے کی صورت میں روپے رکھنے والے کو جو منافع بینکوں کی طرف سے دیاجاتا تھاوہ سود کی تعریف میں اس لیے آتاتھاکہ روپے رکھنے والا صرف نفع میں شریک ہوتاتھا اوربینکوں کا نقصان اس پر کسی صورت بھی اثر انداز نہیں ہوتاتھا۔قومیائے جانے کے بعد اب پوری قوم بینکوں کے نفع نقصان میں شریک ہے۔ کیا اس صورت میں بھی بینکوں سے حاصل کیاہوا منافع سود ہی کی تعریف میں آتا ہے؟اگر نہیں تو کیا ایک مسلمان ان بینکوں میں روپے جمع کرسکتا اور منافع لے سکتا ہے؟
۲- بیمہ کمپنیوں کے قومیائے جانے کے بعد مال وجان کا بیمہ کرانا شرعی نقطہ نگاہ سے جواز حاصل کرچکا ہے یا نہیں ؟
جواب
۱- آپ نے جو سوال کیا ہے وہ غلط فہمی پر مبنی ہے، اسے دور کرلیجیے تو شبہ ختم ہوجائے گا۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بینکوں کاسود حرام ہونے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ روپے رکھنے والا صرف نفع میں شریک ہوتاتھا اور بینکوں کا نقصان اس پر کسی بھی صورت میں اثر انداز نہیں ہوتا تھا کیوں کہ بینکوں میں عام طورسے پبلک جوروپے رکھتی ہےاس کی حیثیت بینک کے ساتھ کسی معاملے میں شرکت کی نہیں ہوتی بینک اس روپے سے جو تجارت کرتا ہے یا جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں روپے رکھنے والے کی قطعاً کوئی شرکت (کاروباری اصطلاح میں ) نہیں ہوتی بیع وفروخت یا کسی تجارتی معاملے میں شرکت ایک بالکل علیحدہ چیز ہے اورکسی بینک میں روپے رکھ کر اس پرزائد رقم وصول کرنا ایک بالکل علیحدہ چیز ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ جب روپے رکھنے والا بینکوں کے کاروبار میں شریک (تجارتی اصطلاح میں ) ہی نہ تھاتو آپ کے سوال کی بنیاد ہی ختم ہوگئی۔
بینکوں کی طرف سے اعلان ہے کہ جو شخص ان کے پاس روپے رکھے گا اسے وہ فی صد اتنا سودادا کریں گے۔ اب جوشخص بینک میں روپے رکھتا ہے خواہ ان کی حفاظت ہی کے لیے رکھتاہواس کی حیثیت بینک کے پاس ایک واجب الادا دین کی ہوتی ہے۔ اور اسی دین پر وہ فی صد کے حساب سے زائد رقم ادا کرتاہے۔ اور یہی زائد رقم سودہے اورقرض اور دین ہی کا وہ سود ہے جسے قرآن نے حرام قراردیاہے۔ بینکوں کو قومیا نے کے بعد اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ آج بھی جو روپے رکھے جاتے ہیں وہ واجب الادادین ہوتے ہیں اوراسی دین پر بینک زائد رقم ادا کرتا ہے۔قرض اوردین پرسابقہ اعلان یا شرط کی بناپر جو زائد رقم دی جاتی ہے اسی کو سود کہتے ہیں اور یہ تعریف جس طرح پہلے صادق تھی، اب بھی صادق ہے۔
ضمنی طورپر ایک بات اوریہ ذہن نشین رکھیے کہ سودی لین دین جس طرح اشخاص پرحرام کیاگیا ہے اسی طرح جماعتوں اورحکومتوں پربھی حرام کیاگیا ہے بلکہ اگر کوئی حکومت سودی لین دین کرتی ہے تو اس کی قباحت اوربڑھ جاتی ہے۔ آپ کے سوال کا جواب ختم ہوا۔
اخیر میں آپ کی ایک اور غلط فہمی کی طرف اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپ نےاپنے سوال میں نفع ونقصان کی جوبات لکھی ہے اس کے لحاظ سے بھی پرائیویٹ سیکٹر کے بینکوں اور قومی بینکوں میں کوئی فرق نہیں ہوا ہے بلکہ اب روپے رکھنے والوں کے روپے اور ان کا سود زیادہ محفوظ ہوگیا ہے اورآج بھی روپے رکھنے والوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔کیا اب قومی بینکوں نے یہ اعلان کردیا ہے کہ بینک کو نقصان ہوگا تو روپے رکھنے والوں کو روپے کم کرکے واپس کیے جائیں گے؟ یااس نے اعلان کردیا ہے کہ بینک کو نقصان ہوگا تو وہ سود کی رقم ادا نہیں کرے گا؟ جب اس نے نہ یہ اعلان کیا ہے اور نہ وہ اعلان تو پھر آخر یہ کیسا نقصان اٹھانا ہےکہ آدمی پوری رقم ہی نہیں بلکہ اس کا سود بھی وصول کرے اور کہے کہ میں تو بینک کے نقصان میں بھی شریک ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ ذہن نشین رکھیے کہ اس طرح کے مسائل میں جوازوعدم جواز کا روباری شرکت پرمبنی ہوتاہے، قومی شرکت پرمبنی نہیں ہوتا۔
۲- بیمہ کمپنیوں کے قومیائے جانے کے بعد بھی جان ومال کا بیمہ کرانا اسی طرح ناجائز ہے جس طرح پہلے تھا البتہ موجودہ خطرناک حالات میں مجبوری کی بناپر مال کا بیمہ کرایا جاسکتا ہے۔ جان ومال کا بیمہ ناجائز اس وجہ سے ہے کہ اس میں سود،جوااور قانون وراثت کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔یہ وجہ آج بھی اسی طرح موجود ہے جیسے پہلے موجود تھی۔ (ستمبر ۱۹۷۱ء،ج۴۷،ش۳)