جواب
جن ممالک میں چوبیس گھنٹے کے اندر طلوع وغروب ہوتا ہے،ان میں خواہ دن اور رات چھوٹے ہوں یا بڑے، نمازوں اور روزوں کے اوقات انھی قاعدوں پر مقررکیے جائیں گے جو قرآن وحدیث میں بتائے گئے ہیں ۔ یعنی فجر کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے،ظہر کی نماز زوال آفتاب کے بعد، عصر کی نماز غروب آفتاب سے قبل، مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد،اور عشا کی نماز کچھ رات گزرجانے پر۔اسی طرح روزہ بہرحال صبح صادق کے ظہور پر شروع ہوگا اور غروب آفتاب کے معاً بعد افطار کیا جائے گا۔ جہاں ظہر وعصر، یا مغرب وعشا میں فصل ممکن نہ ہو،وہاں جمع بین الصلاتین کرلیں ۔
آپ کے صاحب زادے اپنی سہولت کے لیے انگلستان کی رصد گاہ سے دریافت کرلیں کہ ان کے علاقے میں آفتاب کے طلوع وغروب اور زوال کے اوقات کیا ہیں ۔پھر ان اوقات کے لحاظ سے اپنی نمازوں کے اوقات مقرر کرلیں ۔
روزے کے لیے وہاں کے دن کی بڑائی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ ابن بطوطہ نے روس کے شہر بلغار کے متعلق لکھا ہے کہ گرمی کے زمانے میں جب وہ وہاں پہنچا ہے تو رمضان کا مہینا تھا اور افطار کے وقت سے لے کر صبح صادق کے ظہور تک صرف دو گھنٹے کا وقت ملتا تھا۔اسی مختصر مدت میں وہاں کے مسلمان افطار بھی کرتے،کھانا بھی کھاتے،اور عشاکی نماز بھی پڑھ لیتے تھے۔ نماز عشا سے فارغ ہوکر کچھ دیر نہ گزرتی تھی کہ صبح صادق ظاہر ہوجاتی اور پھر فجر کی نماز پڑھ لی جاتی تھی۔
(ترجمان القرآن، جون،جولائی۱۹۵۲ء)