آپ نے زندگی دسمبر ۱۹۸۰ء میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’تاریخ دعوت وعزیمت حصہ چہارم‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لغوی معنی کے لحاظ سے لفظ بدعت کی تقسیم کو صحیح قراردیا ہے اور اس کےلیے تشفی بخش دلائل بھی دیے ہیں۔ لیکن ایک رسالے میں ایک عالم دین ہی کے قلم سے یہ پڑھاکہ ’بدعت ‘ ایک خاص دینی اصطلاح ہے، جس طرح ایمان وکفر اور صلوٰۃ وزکوٰۃ دینی اصطلاح ہے۔ اس لیے بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیۂ صحیح نہیں ہے۔ اسی رائے کو ان عالم دین نے صحیح قراردیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا لفظ بدعت کا لغوی معنی متروک ہوگیا ہے۔ مہربانی فرماکر اس پر اظہار خیال کیجیے تاکہ بات بالکل منقح ہوجائے۔
جواب
اگر آپ میرے دلائل پرمزید غور فرمائیں تو ان ہی سے ان عالم دین کی رائے کا وزن معلوم ہوجائےگا۔ میں نے حدیث نبوی پیش کی ہے جس میں بدعت ضلالۃ کی ترکیب موجود ہے۔ ’سنت‘بھی ایک دینی اصطلاح ہے لیکن حدیث میں صراحت کے ساتھ سنت کو دوقسموں میں تقسیم کیاگیا ہے ’سنت حسنہ‘ اور سنت سیۂ۔ حضرت عمرؓ نے جب تراویح میں متعدد جماعتوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا تو فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ (یہ اچھی بدعت ہے)۔اب اگر ان عالم دین کے نزدیک لفظ بدعت کالغوی معنی متروک ہوگیا ہے تو کیا حضرت عمرؓ نے ’بدعت‘ کالفظ غلط استعمال کیاہے؟ اس سے آگے بڑھ کر سنت کی دو قسمیں کیاغلط قرار دی گئی تھیں ؟ (نعوذ باللہ من ذالک) بدعت کالفظ ہویا سنت کا، میں نے صراحت کے ساتھ لکھاتھا کہ ان کی تقسیم لغوی معنی ہی کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ کسی لفظ کے دینی اصطلاح بن جانے کے بعد اس کا لغوی معنی متروک نہیں ہوتا۔ ایک حدیث میں نماز کی اہمیت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فمن ترکھا فقدکفر (مشکوٰۃ)’’تو جس نے اس کو ترک کردیا اس نے کفر کیا‘‘۔کیاوہ عالم دین تارک صلوٰۃ کو کافر قراردیتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ کفر کا لفظ اس حدیث میں ’اصطلاحی کفر ‘ کےلیے استعمال نہیں ہواہے؟ بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص خواہ وہ بہت بڑا عالم دین ہی کیوں نہ ہو جب کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے اختیار کرلیتا ہے تو شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے خلاف دلائل سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تضاد میں مبتلا ہوجاتاہے۔ کبھی کچھ کہتا ہےکبھی کچھ اور کہتا ہے۔ چناں چہ میں نے اپنے تبصرے میں حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کےایک مکتوب کے حوالے سے بتایا ہے کہ انھوں نے بدعت کی دو قسمیں، بدعت منکر اوربدعت غیرمنکر خود قراردی ہیں، حالاں کہ دوسرے مکتوبات میں انھوں نے بدعت کی تقسیم سے انکار کیاہے اور یہ ان کا ایک کارنامہ سمجھاتا جاتاہے۔ آپ کے اطمینان کے لیے اتنی توضیح کافی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مسئلہ چوں کہ ایک اصولی مسئلہ ہے اس لیے میں مزید تشریح کی ضرورت محسوس کرتاہوں۔
یہ اصولی بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ دینی اسلامی اصطلاحیں عربی لغت ہی سے لی گئی ہیں اور دینی اصطلاح بن جانے کے بعد نہ ان کے لغوی معانی متروک ہوئے ہیں اور نہ قرآن واحادیث میں لغوی معانی کے لحاظ سے ان کا استعمال متروک ہواہے۔ اس لیے کسی شخص کا یہ استدلال کہ فلاں لفظ چوں کہ دینی مذہبی اصطلاح ہے اس لیے یہ صرف دینی اصطلاح ہی کے طورپر استعمال کیاجاسکتا ہے، ایک بالکل ہی غلط استدلال ہے۔میں یہاں قرآن مجید سے چند مثالیں پیش کرتاہوں۔
وحی
لفظ ’وحی‘ خاص دینی اصطلاح ہے کہ اسی پر پورے دین اسلام اور اس کے عقائد واعمال کی بناقائم ہے۔ لیکن دینی اصطلاح بن جانے کی وجہ سے نہ اس لفظ کے لغوی معانی متروک ہوئے ہیں اور نہ قرآن مجید میں ان کا استعمال متروک ہواہے۔
(۱) وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلٰی الحَوَارِیّیِنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِی۔ (المائدہ۱۱۱)
’’اورجب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اورمیرے رسول پرایمان لائو۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریین انبیاء نہیں تھے اس لیے اس آیت میں وحی کالفظ اپنے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہواہے، بلکہ لغوی معنی میں استعمال ہواہے۔ وحی کے لغوی معنی مخفی اشارہ کرنے اوردل میں کوئی بات ڈالنے کے بھی ہیں۔ یہاں اسی معنی میں یہ لفظ آیا ہے۔
(۲) وَاَوْحیٰ رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ (النحل۶۸)
’’اورتمہارے رب نے یہ بات شہد کی مکھی پروحی کی۔‘‘
وحی کے اصل لغوی معنی خفیہ اور لطیف اشارہ کرنے کے ہیں جس کو ارشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا اور کوئی محسوس نہ کرسکے۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ القا (دل میں بات ڈال دینے) کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔ اس آیت میں یہ لفظ اسی لغوی معنیٰ میں آیا ہے۔
(۳) بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحَی لَھَا (الزلزال۵)
’’کیوں کہ تیرے رب نے اس کو وحی کی ہوگی۔‘‘
یہاں بھی یہ لفظ لغوی معنی ہی میں استعمال ہواہے۔
(۴) وَاَوْحَیْنَا اِلَی اُمِّ مُوْسیٰ (القصص۷)
’’اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی۔‘‘
اس آیت میں بھی وحی کا لفظ ’وحی نبوت‘ کے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ القاوالہام کے معنی میں لایاگیاہے۔
(۵) اس لفظ کی نسبت انسان کی طرف بھی کی گئی ہے۔ یعنی ایک انسان دوسرے انسان کو وحی کرتاہے۔
فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَۃً وَّعَشِـيًّا۱۱ (مریم ۱۱)
’’تووہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح وشام تسبیح کرو۔‘‘
(۶) حد یہ ہے کہ وحی کا لفظ شیاطین جن وانس کے لیےبھی استعمال کیاگیا ہے۔
’’اور ہم نے تواس طرح شیطان انسانوں اورشیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پرخوش آئندباتیں دھوکے اورفریب کے طورپر القاکرتے رہے ہیں۔ ‘‘ (الانعام۱۱۲)
اس آیت میں یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
(۷) وَاِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیَائِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ (الانعام ۱۲۱)
’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک واعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ تم سے جھگڑا کریں۔ ‘‘
ان دونوں آیتوں میں تو اس کا کوئی امکان ہی نہیں ہے کہ لفظ وحی کو اس کے اصطلاحی معنی میں لیاجاسکے۔ اب اگر کوئی عالم دین یہ ارشاد فرمائیں کہ ’وحی‘ ایک خاص دینی اصطلاح ہے اس لیے اس کو محض القا کے معنی میں بولنا اور وحی کی تقسیم کرنا غلط ہے تو آپ ان کے اس استدلال کے بارے میں کیارائے قائم کریں گے؟
صلوٰۃ
صلوٰۃ بمعنی نماز ایک خاص دینی اصطلاح ہے اس کی جمع صلوٰت آتی ہے۔ لیکن کیا جب یہ لفظ دینی اصطلاح بن گیا تو اس کے لغوی معنی متروک الاستعمال ہوگئے؟ اب یہ لفظ بول کراس کا کوئی لغوی معنیٰ مراد نہیں لیا جاسکتا ؟ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ غلط ہے۔
(۱) اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَواتٌ مِن رَّبِھِمْ وَرَحْمَۃٌ (البقرۃ۱۵۷)
’’ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس آیت میں صلوات کا لفظ نماز کے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں کیاگیا ہے بلکہ لغوی معنیٰ میں استعمال کیاگیا ہے یعنی الطاف وعنایات، مہربانی اور مغفرت۔
(۲) وَیَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَاللہِ وَصَلَوَاتُ الرَّسُوْلِ (التوبہ۹۹)
’’اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے یہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت میں بھی صلوات کا لفظ اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ دعا کے لغوی معنی میں لایا گیاہے۔
(۳) وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ (التوبہ۱۰۳)
’’اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیوں کہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی۔‘‘
یہاں تو صلوٰۃ واحد استعمال ہواہے اور اس کے معنی دعا کے ہیں، نماز کے نہیں ہیں۔
(۴) سورۃ النور آیت ۴۱ میں ہے
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ کی تسبیح کررہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں او روہ پرندے جو پر پھیلائے ہوئے اڑرہے ہیں۔ ‘‘
کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ
’’ہرایک اپنی صلوٰۃ اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔‘‘
اس آیت میں بھی صلوٰۃ کا لفظ اپنے اصطلاحی شرعی معنی میں منحصر نہیں ہے۔ کیوں کہ پرندوں اور دوسرے جانوروں کے لیے وہ اصطلاحی صلوٰۃ نہیں ہے جو ہمارے اور آپ کے لیے ہے۔
صوم
(۱) فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا۰ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا۲۶ۚ (مریم۲۶)
’’پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمٰن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے اس لیے میں آج کسی سے نہ بولوں گی۔‘‘
اس آیت میں ’صوم‘ کا لفظ اصطلاحی شرعی معنی میں مستعمل نہیں ہے بلکہ خاموشی کے معنی میں استعمال ہواہے۔ ’چپ کا روزہ‘ بنی اسرائیل میں رکھا جاتاتھا۔
زکوٰۃ
(۱)فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَيْرًا مِّنْہُ زَكٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا۸۱ (الکہف۸۱)
’’اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہواور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔‘‘
اس آیت میں زکوٰۃ کالفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں لایاگیا ہے بلکہ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہواہے۔ لغت میں زکوٰۃ کے ایک معنی پاکی وپاکیزگی کے بھی ہیں۔ یہاں یہ لفظ اسی معنی میں آیاہے۔
(۲) وَحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوۃً۰ۭ (مریم۱۳)
’’اوراپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطاکی۔‘‘
حضرت یحیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہاں زکوٰۃ کا لفظ اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ لغوی معنیٰ میں استعمال ہواہے۔
ایمان وکفر
یہی حال لفظ ایمان وکفر کا ہے۔ دونوں الفاظ دینی اصطلاح بن گئے ہیں لیکن ان کا لغوی استعمال متروک نہیں ہواہے۔ شریعت اسلامیہ کے لحاظ سے ایمان، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمدﷺ کی رسالت پریقین واقرار کانام ہے۔ جو شخص دل سے اس کو مانے اور زبان سے اشھدان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھ لے وہ مومن ومسلم ہو جاتا ہے۔لفظ ایمان کا مادہ ’امن ‘ ہے اور مختلف ابواب وصلات کے لحاظ سے اس کے متعد د لغوی معانی ہیں۔ ’ایمان ‘ کے لغوی معنی امن دینے اور تصدیق واعتماد کرنے کے بھی ہیں۔ وہ انسان مومن ہے جو اللہ ورسول پریقین اوراعتماد کرنے والا ہو اور ’المومن‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں بھی ہے۔ سورۃ الحشر کے اخیر میں متعدد اسماء حسنیٰ میں ’المومن ‘ بھی ہے، یعنی امن دینے والا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مومن لغوی ہی معنی کے لحاظ سےکہاگیا ہے۔ ماننے اور اعتماد کرنے کے لغوی معنی ہی کے لحاظ سے یہودیوں کے بارے میں فرمایا گیاہے
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ (النساء۵۱)
’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیاگیا ہے اور ان کا حال یہ ہےکہ جبت وطاغوت کو مانتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت میں ’ایمان ‘ کالفظ شرعی اصطلاح کے معنی میں نہیں آیاہے، بلکہ ماننے اور اعتماد کرنے کے لغوی معنی میں استعمال ہواہے۔ ’ایمان ‘ کالفظ یقین واعتماد کے لغوی معنی ہی کی جہت سے متعدد آیتوں میں آیا ہے۔ مثلاً سچے اور پکے مسلمانوں نے جب لشکر کفار کے دل بادل کو دیکھا تو ان کا یہ حال ہوا
وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِــيْمًا۲۲ۭ (الاحزاب۲۲)
’’اور اس سے ان کا ایمان اور اطاعت زیادہ ہوگئی۔‘‘
اس آیت میں لفظ ایمان شرعی اصطلاح کے معنی میں نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بات ان لوگوں کے بارے میں کہی گئی ہے جو بہت پہلے سے سچے اور پکے مومن تھے۔ اس کے معنی یہاں پریہ ہیں کہ ان کا یقین اوراعتماد اللہ ورسول پراور بڑھ گیا۔
اصطلاحی طورپر کفر کا لفظ ایمان کی ضد ہے۔ یعنی توحید، رسالت اور آخرت کاانکار کرنا۔ کفر کے لغوی معنی چھپادینے کے ہیں۔ اسی لحاظ سے ’رات‘ کو کافر کہتے ہیں چوں کہ وہ چیزوں کو نظروں سے چھپادیتی ہے اور کاشت کار کو بھی کافر کہتےہیں کیوں کہ وہ بیج کو زمین میں چھپادیتاہے۔
اسی لغوی معنی کے لحاظ سے ناشکری پرکفر اور کفران کااطلاق ہوتاہے۔ ناشکری کے معنی میں یہ لفظ قرآن میں متعدد آیتوں میں استعمال ہواہے۔ مثلاً فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہاتھا
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۱۹ (الشعراء۱۹)
’’اور اس کے بعد کرگیاجو کچھ کرگیا۔ توبڑا احسان فراموش ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہاں کافر کالفظ اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ ناشکری کے معنیٰ میں آیا ہے۔
حرف آخر
اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا قرآن مجید کی یہ آیتیں ان علماء کے سامنے نہیں تھیں یا نہیں ہیں جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ ’بدعت‘ ایک خاص دینی اصطلاح ہے اور اس کی تعریف یہ ہے، لہٰذا جب ’بدعت‘ کا لفظ بولا جائے گا تو اس سے مراد یہی اصطلاحی بدعت ہوگی۔ اس سوال کا جواب اصلاً میرے ذمے نہیں ہے۔البتہ ایک بات تووہ سمجھ میں آتی ہے جس کا ذکر اوپر گزرا۔ یعنی ایک رائے اختیار کرلینے کے بعد اس کے خلاف دلائل سے اعراض۔ اور دوسری بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ چوں کہ بہت سے لوگ ’اصطلاحی بدعتوں ‘ کو بھی بدعت حسنہ قراردے کر اس کی مدافعت کرتے اور ان کے رائج رہنے کی تائید کررہے تھے اس لیے رد عمل کے طورپر انھوں نے لغوی معنی کے لحاظ سے بھی بدعت کی تقسیم کاانکار کردیا۔ ان علماء میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خود بڑی بڑی بدعتوں میں مبتلا ہیں اور ان پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگلتے ہیں۔ (اپریل ۱۹۸۱ء ج۶۶ش۴)