لفظ ’اتباع‘ کاترجمہ

کل کی ڈاک سے ’زندگی نو‘ کا مارچ ۱۹۸۵ء کا شمارہ موصول ہوا۔اس شمارہ میں آپ نے میری کتاب ’قومی یکجہتی اوراسلام‘ پرتبصرہ فرمایا ہے۔ شکریہ کے ساتھ چند خادمانہ معروضات پیش خدمت ہیں۔ امید ہے کہ قریبی اشاعت میں شائع فرماکر مشکورفرمائیں گے۔

(۱) آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مصنف نے یہ کتاب’قوم پروری‘ کے نقطۂ نظر سے لکھی ہے اور لفظ ’قوم پروری‘ واوین میں تحریر فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں میں آپ کے محتاط رویہ کامشکور ہوں کہ آپ نے ’قوم پرستی‘ نہیں لکھا۔ میرے نزدیک ’قوم پروری‘ اپنے صحیح اور مثبت معنوں میں نہ صرف جائزبلکہ ضروری ہے اورہندوستانی مسلمانوں پرواجب ہے کہ وہ اسلام کی واضح تعلیمات کی روشنی میں ہندی قوم کی دینی، اخلاقی اور سماجی پرورش کرتے رہے۔

(۲) مصنف کامختصر تعارف، پیش لفظ کے صفحات کی تعداد، ابواب کی تعداد، حرف آخر اور کتابیات کے سرسری ذکر کے بعد آپ ایک دم کتاب کے باب ششم ’محکوم مسلمانوں کے فرائض‘ پرآگئے ہیں۔ اس عنوان پر چونکنا فطری بات ہے۔ لیکن چونک کر صرف اسی ایک باب کو پڑھنا اور فیصلہ کرلینا صحافتی ذمہ داری کے منافی ہے۔ اس باب کامقام ساتواں ہے۔ اس سے پہلے، پیش لفظ اور دیگر پانچ ابواب ہیں اور اس کےبعد باب ہفتم اورحرف آخر ہے۔ اور ہر حصہ ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ البتہ اگر زبردستی الگ کرلیاجائے تو ضروربے جوڑ محسوس ہوگا۔ اگر میرا پیش لفظ، حرف ِ آخر، باب چہارم ’قومی یکجہتی اور اس کے مقاصد‘ اور باب پنجم ’یکجہتی کا اسلامی تصور‘ کو بہ نظر انصاف پڑھاجائے توکتاب اوراس کے مصنف کے بارے میں جو رائے قائم کی گئی ہے وہ غلط ثابت ہوگی۔

(۳) جہاں تک باب ششم میں علامہ شبلی نعمانی  ؒ کے اقتباسات کاتعلق ہے آپ نے اس پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ اصل کتاب آپ کے سامنے نہیں ہے۔ براہ کرم ایک بار آپ مقالات شبلی جلد اول مکتبہ معارف اعظم گڑھ ۱۹۵۴ء کو دیکھ لیں۔ اس کے بعد فیصلہ کریں کہ آیا یہ اقتباسات واقعی ان کے ہیں یا میرے اختراع ہیں۔

(۴) میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مذکورہ حوالے میں نے براہ راست مقالات شبلی سے لیے ہیں جس میں یہ اقتباسات اسی عنوان کے تحت ہیں جس کی عبارت پرآپ کی نظر رکتی ہے۔ عربی عبارتوں کا ترجمہ بھی علامہ موصوف ہی کا ہے۔ میں نے خود نہیں کیاہے۔ ترجمہ پر تبصرہ فرماتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’اگر یہ ترجمہ علامہ شبلی نے کیا ہے تو حیرت انگیز ہے اور اگر مصنف نے کیا ہے تو حد درجہ افسوس ناک ہے۔‘‘ ایک ہی معاملہ میں علامہ شبلی ؒاور مصنف کے لیے ’حیرت انگیز‘ اور ’حددرجہ افسوس ناک‘ کا فرق مراتب کیوں ہے؟ میرا ذہن اس ’شخصیت پرستی‘ کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔

دوسری طرف آپ نے آخر میں تحریر فرمایا  ’’اب غورکیجیے کہ اس مسئلے سے بحث کاکیا تعلق ہے جس کی دلیل میں مصنف نے اس کو پیش کیا اور بالکل غلط ترجمہ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ بات ندوہ کے کسی استاد کے لیے کسی طرح مناسب نہیں تھی۔ ’’شاید اسی چھٹے باب کے کارنامےپرمالی تعاون ملاہوگا۔‘‘

میں نے اس باب کی تمہید میں لکھا ہے کہ میں ربط وتسلسل کا لحاظ رکھتے ہوئے علامہ شبلی کے اقتباسات نقل کررہاہوں۔ اس لیے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اصل مرجع تبصرہ نگار کے سامنے نہیں ہے، براہ راست مصنف کو غلط نتیجہ نکالنے اور’’بالکل غلط ترجمہ کے ساتھ پیش کرنے کے لیے موردِ الزام ٹھہرانا اوریہ کہنا کہ یہ بات ندوہ کے کسی استاد کے لیے کسی طرح مناسب نہ تھی‘‘ کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہری بات کہہ کر قارئین ’زندگی ‘ کو مغالطہ میں ڈالنے کی یہ دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ علامہ شبلی  ؒ ہوتے تو وہی اس کا جواب دیتے کہ مسئلے کابحث سے کیاتعلق ہے۔

رہی یہ بات کہ ’’شاید اس چھٹے باب کے کارنامے‘‘ پرمالی تعاون ملاہوگا۔ تو میں واضح کردینا چاہتاہوں کہ فخر الدین کمیٹی ایک خود مختار نیم سرکاری ادارہ ہے جس کو مسودات کے انتخاب اورتعاون کی منظوری کا پورا اختیار حاصل ہے۔ اس سلسلے میں صرف اس بات کا لحاظ رکھاجاتا ہے کہ اس کے تعاون سے شائع ہونے والے مواد سے کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہوورنہ یہاں کسی ’کارنامہ‘پرخصوصی توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر آپ اس کے تعاون سے شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست پرنظر ڈال لیں توبات واضح ہوجائے گی۔

آخرمیں میں صاف عرض کردینا چاہتاہوں کہ ’اتباع ‘ کا ترجمہ ’پیچھا کرنا‘ بہرحال غلط ہے۔ اگر اپنی مرضی مطابق عربی الفاظ کے معنوں میں یہ تحریف روارکھی گئی تو قرآن حکیم کی بہت سی آیتوں کامفہوم بدل جائے گا۔

جواب

تبصرہ نگار کامصنف کی تمام باتوں سےمتفق ہونا ضروری نہیں ہے اورنہ کسی مصنف کاکسی کے تبصرے سے متفق ہونا ضروری ہے۔ لیکن فاضل مصنف نے اپنے خط کے آخرمیں یہ جولکھا ہے کہ ’اتباع ‘ کاترجمہ ’پیچھا کرنا‘ بہرحال غلط ہے۔ اگر اپنی مرضی سے مطابق عربی الفاظ کے معنوں میں یہ تحریف روا رکھی گئی تو قرآن حکیم کی بہت سی آیتوں کامفہوم بدل جائے گا۔

انھی آخری جملوں کی وجہ سے میں نے ان کو ایک خط بھیجا تھا کہ آپ کا خط اپنے جواب کے ساتھ میں شائع کروں گا او ریہ مخلصانہ مشورہ بھی دیا تھا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے دوعلماء مولانا مفتی محمد ظہورندوی اورمولانا برہان الدین سنبھلی صاحبان سے وہ مشورہ کرلیں کہ فقہی عبارت کے جس مقام پر ترجمہ کو میں نے غلط کہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط ؟ مجھے معلوم نہیں کہ میرا ارسال کردہ پوسٹ کارڈان کوملایا نہیں۔ میں اب اپنا وعدہ پورا کررہاہوں۔ میں نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ مقالات شبلی جلد اول میرے سامنے نہیں ہے۔ مصنف کاخط آنے کے بعد ایک لائبریری میں جاکر مولانا شبلی کے اس مقالے کو پڑھنا پڑا۔ مصنف کا حوالہ صحیح ہے اور اب یقین کے ساتھ لکھنا پڑرہاہے کہ مولانا شبلی کاترجمہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ انھوں نے غلط ترجمہ کیوں کیا تھا اس پر قیاس سے کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ شخصیت پرستی حرام، لیکن فرق مراتب ضروری ہے۔ مصنف نے اس پر اعتراض کیا ہے شاید وہ فرق مراتب کے قائل نہیں ہیں۔

تیسری بات یہ کہ میں نے ان کی کتاب کے باب ششم کوکیوں ’بے جوڑ‘ لکھا اس کی وجہ بھی لکھی تھی۔ چوتھی بات یہ کہ اتباع کاترجمہ ’پیچھا کرنا‘ نہ غلط ہے اور نہ تحریف۔ میں بہت اختصار کے ساتھ اس کے بارے میں چند باتیں عرض کرتاہوں۔

یہ بات ہرپڑھے لکھےشخص کومعلوم ہوگی کہ شرعی اصطلاحیں لغوی معنی ہی کے لحاظ سے بنی ہیں۔ لیکن معلوم نہیں یہ غلط فہمی کس طرح پیداہوگئی ہے کہ اصطلاح بن جانے کے بعد اس کا لغوی معنی غیرمستعمل ہوجاتاہے۔ یہ غلط فہمی اونچے درجے کے اہل علم میں بھی پائی جاتی ہے۔ لفظ ’بدعت ‘ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں زندگی اپریل ۱۹۸۱ء کے رسائل ومسائل میں تفصیل سے اس پر اظہار خیال کیاتھا اور قرآن کریم کی آیات پیش کرکے بتایا تھا کہ کوئی اصطلاح مقرر ہوجانے کے بعد بھی قرآن کریم میں اس کے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بھی اس کے استعمالات موجود ہیں۔ یہاں اس کی پوری تفصیل دہرائی نہیں جاسکتی۔ صرف ایک لفظ ’حدیث‘ کوسامنے رکھ لیا جائے تو کافی ہے۔ اس کے ایک اصطلاحی معنی ہیں اورایک لغوی معنی، لغوی معنی ہی کے لحاظ سے خو دقرآن کریم کو،قرآن میں بھی اور احادیث میں بھی ’حدیث‘ کہاگیا ہے۔ آج اسی غلط فہمی کی بناپرلفظ ’اتباع ‘ پراظہار خیال کرنا پڑ رہا ہے۔لفظ اتباع ’تبع‘ کےمادے سے بناہے۔ تبع کے لغوی معنی کسی کے پیچھے چلنے کےہیں۔ یا پہلے سے گئے ہوئے شخص یا اشخاص سے بعد کو جاکر مل جانے کے ہیں۔ ’تبع ‘ کا لفظ متعدد ابواب میں استعمال ہوتاہے۔ ان میں سے دوباب- باب افتعال اورباب افعال ہیں، باب افتعال سے اتّباع بناہے اورباب افعال سے اتباع۔ لغوی معنی کے لحاظ سے قاموس میں اس کے وہی معنی دیے ہیں جو تبع کے ہیں۔ قاموس میں ہے۔ الا تباع والاتباع کالتبع۔

اسی لغوی معنی ’پیچھے چلنے‘ کے لحاظ سے اللہ ورسولؐ کی اطاعت اور فرماں برداری کی اصطلاح بنی ہے۔ لیکن اس کے لغوی معنی غیرمستعمل نہیں ہوئے ہیں بلکہ قرآن میں یہ دونوں، اتباع اوراتباع لغوی معنی میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً حضر ت لوط علیہ السلام کو جب اپنے مومنوں کے ساتھ بستی سے نکل جانے کا حکم دیاگیا تو یہ حکم بھی دیاگیا اَتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ (الحجر۶۵) اس کا ترجمہ شاہ عبدالقادر اور شیخ الہند رحمہما اللہ نے یہ کیا ہے ’’اور توچل ان کے پیچھے۔ ‘‘ظاہر ہے کہ یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہواہے، اطاعت اورفرماں برداری کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے۔ اسی طرح لفظ اتباع پیچھے چلنے اور پیچھا کرنےکے معنی میں بھی استعمال ہواہے۔ مثلاً فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہٗ (یونس۹۰) اس کا ترجمہ شاہ عبدالقادر اور شیخ الہندؒ نے یہ کیا ہے’’پھر پیچھا کیا فرعون اوراس کے لشکر نے۔‘‘

زیر بحث فقہی عبارت میں بھی لفظ اتباع قطعی طورپر لغوی ہی معنی میں استعمال ہواہے۔ اس عبارت میں اس کا ترجمہ اطاعت کرنا ایک ایسی غلطی ہے جس کی توجیہ مشکل ہے۔ تحریف میں نے نہیں کی ہے بلکہ اس شخص نے کی ہے جس نے فقہ کی اس عبارت میں اتباع کا ترجمہ ’’ اور ہم پران کی اطاعت فرض ہوگی‘‘ کیا ہے۔ میں نے فقہ کے اس مقام کی ایک مختصر توضیح بھی کی تھی لیکن شاید مصنف نے اس کی طرف توجہ ضروری نہیں سمجھی۔ آخر میں مصنف کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ کسی مستند اورمعتمد علیہ عالم مفتی سے فقہ کے اس مقام کوسمجھ لیں۔                                       (مئی ۱۹۸۵ء ج۲ش۵)