جواب
سورئہ یوسف کی آیات۱۸ اور ۸۳ میں سَوَّلَتْ کا جو مفہوم میں نے بیان کیا ہے وہی علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
سَوَّلَتْ سَھَّلَتْ مِنَ السَوَلِ وھو الاسترخاء لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْراً عظیماً ارْتَکَبْتُمُوہُ مِنْ یُوسُفَ وَھَوَّنَتْ فیِ أَعْیُنِکُم ({ FR 1962 })
’’سَوَّلَت کے معنی سَھَّلَتْکے ہیں یعنی آسان کر دیا، (اس کا مادہ سَوَّلَ ہے، یعنی نرم ہو جانا، جھک جانا،) تمھارے نفس نے تمھارےلیے اس بھاری کام کو جس کا ارتکاب تم نے یوسف کے معاملے میں کیا اور تمھاری نگاہوں میں اسے معمولی چیز بنا دیا۔‘‘
بخلاف اس کے سورۂ طٰہٰ کی آیت۹۶ میں سَوَّلَتْ کا وہ مفہوم موقع و محل سے مناسبت نہیں رکھتا، جو سورئہ یوسف کے ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ یہاں سامری اپنی صفائی پیش کر رہا ہے۔ اس لیے یہاں میں نے تَسْوِیْل کو تحسین کے معنی میں لیا ہے اور اس کی گنجائش بھی لغت میں موجود ہے۔
اَلتَّسْوِیْلُ: تَحْسِیْنُ الشَّیْئِ ئِ وَتَزْیِیِنُہٗ وَتَحْبِیْبُہُ إلٰی الْاِنْسَانِ لِیَفْعَلَہُ أَوْ یَقُولَہُ۔ ({ FR 2098 })
’’تسویل کے معنی یہ ہیں کہ کسی شے کو انسان کے لیے خوش نما اور مزّین بنا دیا جائے تاکہ وہ اسے کرے یا کہے۔‘‘
گویا سامری یہ کہہ رہا ہے کہ ’’میرے نفس نے یہی کچھ میرے سامنے ایک اچھے کام کی حیثیت سے پیش کیا۔
اسی مفہوم کو میں نے ’سُجھانے‘ کے لفظ سے ادا کیا ہے۔ اردو زبان میں ایسے مواقع پر سجھانا قریب قریب اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس میں تسویل کا لفظ عربی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے اس کا ترجمہ کیا ہے:
’’یہی مصلحت دی مجھ کو میرے جی نے۔‘‘
امام راغبؒ نے بھی اپنی مفردات القرآن میں تسویل کے معنی تزیین و تحسین بیان کیے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
التسویل: تزیین النفس لما تحرّض علیہ و تصویر القبیح منہ بصورۃ الحسن۔({ FR 1963 })
’’تسویل سے مراد یہ ہے کہ انسان کا نفس اپنی انگیخت کو اس کے لیے مزّین کر دے اور برائی کو اس کے لیے خوب صورت بنا کر پیش کرے۔‘‘
قاموس میں ہے: سَوَّلَتْ لَہُ نَفْسُہ کَذَا: زَیَّنَتْ [...] وَالأسْوَلُ مَنْ فِی أَسْفَلِہِ اسْتِرْخَا۔ ({ FR 2099 })
لین (lane) نے اپنی لغت مدّالقاموس میں سوّل کے معنی درج کیے ہیں :
made it appear easy to him
’’اس بات کو اس کے لیے آسان بنا دیا۔‘‘ (ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۷۹ئ)