لونڈیوں سے فائدہ اٹھانے کامطلب کیا ہے؟

 زندگی ماہ اگست ۱۹۶۳ء میں ’تعداد ازدواج قرآن کی روشنی میں ‘ کے عنوان سے جو مقالہ شائع ہوا ہے اس کے صفحہ ۳۲سطر ۲۱۔۲۲ میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ایک ہی عورت سے نکاح کرو یا لونڈیوں پراکتفا کرو۔‘‘ پھر صفحہ ۳۳سطر ۵ میں تحریر فرمایا کہ ’’اگر پھر بھی ظلم کا اندیشہ ہوتو بس ایک نکاح پراکتفا کرویا لونڈیوں سے فائدہ اٹھائو۔‘‘ اب دریافت طلب امریہ ہےکہ ’’ایک نکاح کے ساتھ لونڈیوں پراکتفا کرویا لونڈیوں سے فائدہ اٹھائو‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنے والے شمارہ میں اس پر روشنی ڈالیے ورنہ میرے جیسے کم علم رکھنے والے غلط فہمی کا شکارہوں گے۔

جواب

ان دونوں عبارتوں میں لونڈیوں کا جو لفظ استعمال ہواہے وہ فقہ کا اصطلاحی لفظ ہے۔ اس سے مراد آج کل کی نوکرانیاں یا گھر کی خدمت گار عورتیں نہیں ہیں۔ ’لونڈی‘ شرعی وفقہی اصطلاح میں اس عورت کو کہتے ہیں جو کفارسے جنگ میں بطور مال غنیمت ہاتھ آئی ہو اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے بعد خلیفۂ وقت کی طرف سے کسی سپاہی کو اس کے حصہ میں دےدی گئی ہو۔ وہ عورت جس کے حصہ میں آجائے وہ اس کا مالک ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں ایسی عورتوں کے لیے مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (وہ عورتیں جو تمہاری ملکیت میں آگئی ہوں ) کا جملہ استعمال کیاگیا ہے۔ آزاد عورتوں اور اس طرح کی مملوکہ ومقبوضہ لونڈیوں کے بہت سے احکام میں اسلامی شریعت نے فرق کیاہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایسی کسی لونڈی کامالک نکاح کیے بغیر اس سے مباشرت کرسکتا اور اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

’ایک نکاح پراکتفا کرویا لونڈیوں سے فائدہ اٹھائو‘ کامطلب یہ ہے کہ اگر تم چند آزاد عورتوں سے نکاح کرکےان کے درمیان عدل وانصاف نہیں کرسکتے تو تمہارے لیے دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کسی ایک ہی آزاد عورت سے نکاح کرو۔دوسری یہ کہ اگر تمہارے پاس تمہاری مملوکہ ومقبوضہ لونڈیاں ہوں تو ان سے مباشرت کافائدہ اٹھائو۔

اس وقت چوں کہ شرعی اصطلاح کے لحاظ سے غلاموں اور لونڈیوں کا وجود نہیں ہے، دوسرے یہ کہ جس موضوع پرمقالہ لکھا گیا ہے اس سے یہ مسئلہ غیرمتعلق تھا اس لیے لونڈیوں کے مسئلے کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ یہ خود ایک علیحدہ اسلامی مسئلہ ہے جس پر اعتراض کیاجاتا ہے اوراس اعتراض کے جواب میں علماء نے بہت کچھ لکھا بھی ہے۔

امید ہے کہ اس توضیح کے بعد ان عبارتوں سے غلط فہمی پیدانہ ہوگی۔

(ستمبر ۱۹۶۳ء ج۳۱ش ۳)