لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ کی تفسیر پر اعتراض

میں اپنے قصبہ… میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے کام کررہا ہوں ۔چند اور رفیق بھی میرے ساتھ ہیں ۔انفرادی مخالفت پہلے بھی تھی جس کی رپورٹ میں اپنی جماعت کے مرکز کو بھیجتا رہا ہوں ۔لیکن اب ایک معاملہ ایسا پیش آگیاہے کہ آپ سے استفسار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ پرسوں سے ایک مولانا صاحب جن کا نام …ہے، یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں اور انھوں نے قصبے میں اپنے خاص اشتہارات(ایک نقل منسلک ہے)({ FR 975 }) کافی تعداد میں تقسیم کراے ہیں ۔پھر شام کو ایک بہت بڑے مجمع میں تقریر کرکے جماعتِ اسلامی کے خلاف بہت کچھ زہر اگلا ہے۔میں چند باتیں ان کی نقل کرکے ملتمس ہوں کہ ضروری تصریحات سے جلد ازجلد میری راہ نمائی فرمائی جائے۔ مولانا مذکور کا ارشاد ہے: جماعتِ اسلامی کے بڑے امیر سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نہ تو کوئی مستند عالم ہیں نہ کوئی مفسر۔ صرف اپنے ذاتی علم کی بنا پر ترجمہ اور تفسیر کرتے ہیں ۔ اس کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ( آل عمران:۹۲) کا ترجمہ ’’خطبات‘‘ میں یہ ہے کہ ’’نیکی کا مرتبہ تم کو نہیں مل سکتا جب تک کہ تم وہ چیزیں خدا کے لیے قربان نہ کر دو جو تم کو عزیز ہیں ۔‘‘ اس کی تشریح میں مولاناے مذکور نے یہ فرمایا کہ دیکھو جماعتِ اسلامی تم کو نیک اور مسلمان نہیں سمجھتی جب تک کہ تم کل مال خدا کی راہ میں جماعت کو نہ دے دو۔ ورنہ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ تم نیکی میں کمال حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اپنی پیاری چیز میں سے کچھ خدا کی راہ میں قربان نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ نیک اور مسلمان تو تم ہر وقت ہو ہی، جب تک تم یہ کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں ، البتہ کامل جب ہو گے جب پیاری شے میں سے کچھ خدا کی راہ میں قربان کروگے۔ قرآن کے چند ترجموں میں میں نے بھی دیکھا ہے کہ لفظی ترجمہ یہی ہے جو انھوں نے کیا ہے۔ اس کی کیا تأویل ہو سکتی ہے؟
جواب

جو حالات آپ نے لکھے ہیں وہ اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں جو پاکستان میں ہرجگہ رُونما ہیں ۔ ہم اور ہمارے مخالفین، دونوں اپنا اپنا نامۂ اعمال خود تیار کر رہے ہیں ۔ جن اعمال کو ہم اپنے حساب میں درج کرانا چاہتے ہیں ان کے لیے کوشاں ہیں اور دوسرے فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ہمارے مخالفین نے اگر اپنے لیے یہی پسند کیا ہے کہ ان کے نامۂ اعمال میں ہماری مخالفت ہی سب سے نمایاں مقام پائے تو ضرور وہ اس کار خیر کو بڑھ چڑھ کر انجام دیں ۔ ایک وقت آئے گا کہ ہم سب کے ہاتھ میں اپنا اپنا تیار کردہ کارنامۂ حیات دے دیا جائے گا اور حکم ہو گا کہ
اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا (بنی اسرائیل:۱۴)
’’(کہا جائے گا کہ) اپنی کتاب پڑھ لے۔ تو آج اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے۔‘‘
جومولانا صاحب آپ کے علاقے میں جماعتِ اسلامی کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا اٹھائے پھر رہے ہیں ان کے اعتراض کا مختصر جواب یہ ہے:
خطبات کے جس مقام کو انھوں نے نشانۂ ملامت بنایا ہے،وہ ’’زکاۃ کی حقیقت‘‘ کے زیر عنوان آپ خود تلاش کرسکتے ہیں ۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ (آل عمران:۹۲) کا ترجمہ میں نے یہ کیا ہے: ’’تم نیکی کے مقام کو نہیں پاسکتے جب تک کہ وہ چیزیں خدا کی راہ میں قربان نہ کرو جن سے تم کو محبت ہے۔‘‘ اور اس سے میں نے مراد یہ لی ہے کہ اﷲ کا دوست بننے اور اس کی پارٹی(حزب ﷲ) میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اﷲ کی محبت پر جان،مال،اولاد،خاندان، وطن،ہر چیز کی محبت کو قربان کردے۔ اس کے ساتھ ذرامولانا اشرف علی تھانویؒ کے ترجمہ وتشریح پر بھی نگاہ ڈال لیں ۔وہ ترجمہ یہ فرماتے ہیں کہ:’’تم خیر کامل کو کبھی نہ حاصل کرسکوگے،یہاں تک کہ اپنی پیار ی چیز کو خرچ نہ کرو گے۔‘‘ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست عزیز تھی،جس کے تھامنے کو نبی ﷺ کے تابع نہ ہوتے تھے۔تو جب تک وہی نہ چھوڑیں ، اﷲ تعالیٰ کی راہ میں درجۂ ایمان نہ پاویں ۔‘‘({ FR 1137 })اب ہر شخص خوددیکھ لے کہ نہ میرا ترجمہ ہی مولانا ممدوح کے ترجمے سے کچھ زیادہ مختلف ہے اور نہ اس کی تشریح ہی میں معنی کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق پایا جاتا ہے۔اس کے بعد معترض نے میرے ترجمہ وتشریح سے جو معنی نکالے ہیں ، ان پر دوبارہ ایک نظر ڈال لیجیے۔ آخر میرے ترجمہ وتشریح سے یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک کوئی شخص اپنا سارا مال خدا کی راہ میں جماعتِ اسلامی کے حوالے نہ کردے، یہ جماعت اس کو نیک اور مسلمان نہیں سمجھتی؟اس طرح جو لوگ دوسروں کو مطعون کرنے کے لیے اپنی طرف سے غلط باتیں گھڑکر ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ،ان کی یہ حرکت خود ہی ظاہر کردیتی ہے کہ وہ نفسانیت کی بنا پر مخالفت کررہے ہیں نہ کہ للہیت کی بنا پر۔ (ترجمان القرآن، مارچ تا مئی۱۹۵۱ء)