مجبوری کی حالت میں سودی قرض لیا جاسکتا ہے

میرااجناس کاکاروبار ہے۔ ہول سیل تاجروں سے ادھار خریدکر فروخت کرتا ہوں۔ ایمرجنسی کے دوران نظربند رہا جس کی وجہ سے کاروبار رک گیا۔ چھوٹے دکان داروں سے رقم وصول نہیں ہوئی اور اب وہ لوگ دکانیں اٹھاکر منتشر ہوگئے۔ اس طرح ۲۱ہزار کی رقم جوان پربقایا تھی ڈوب گئی اور میں بڑے تاجروں کا مقروض ہوگیاہوں۔ ایمرجنسی کی برخاستگی ورہائی کے بعد دوبارہ یہی کام شروع کردیا ہے۔ لیکن قرض نمٹانے کے موقف میں ابھی تک نہیں آیا ہوں۔ قرض کی واپسی کاتقاضا ہورہاہے۔ اس سے چھٹکارے کی حسب ذیل صورت ہے

مرکزی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ایسے لوگ جو ایمرجنسی کے دوران چھ ماہ یا اس سے زائد عرصہ کے لیے گرفتارہوئے تھے انھیں بینکوں کی جانب سے قرض فراہم کیاجائے گا تاکہ ایمرجنسی کے دوران جن کے کاروبار متاثر ہوئے تھے ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد ملے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ قرض لے سکتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

اسی طرح کے متعدد خطوط ارکان جماعت اسلامی ہند کی طرف سے مرکز جماعت اسلامی دہلی میں آئے ہیں اور آتے رہتے ہیں۔ یہ خطوط میرے پاس جواب دینے کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار ماہ نامہ ’زندگی‘ کے ’رسائل ومسائل‘ میں بھی اور ڈاک سے بھیجے گئے جوابات میں بھی اپنی رائے ظاہر کرچکا ہوں۔ اب تک میری رائے میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہے۔اس لیے پھر اس کو دہراتا ہوں کہ میرے نزدیک صرف مجبوری کی حالت میں قرض لیاجاسکتاہے خواہ وہ حکومت سے لیا جائے یا کسی اورسے۔ جب تک کوئی شرعی دلیل اس رائے کے خلاف نہ مل جائے اس کو بدلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سود کی حرمت جتنی شدید ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے۔
’مجبوری‘ کی کوئی متعین تعریف جو ہرشخص کے حالات پرصادق آجائے بہت مشکل ہے۔ اس لیے کہ لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ اپنے حالات کے لحاظ سے ہر مسلمان خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ سودی قرض لینے کے لیے مجبورہے یا نہیں ؟ البتہ یہ بات ذہن میں تازہ رکھنی چاہیے کہ اصل جواب دہی اللہ تعالیٰ کے سامنے کرنی ہوگی، جو علیم وخبیرہے۔
مسئلہ بتانے والا تو سوال دیکھ کر اسی کے لحاظ سے جواب دے دیتاہے۔مثال کے طورپر اوپر جو خط نقل کیاگیا ہے اس سے جو صورت حال ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کیاجارہاہے، ادا کرنے کے لیے رقم موجود نہیں ہے اورکہیں سے بلاسودی قرض بھی نہیں مل سکتا کہ اسے حاصل کرکے پرانے قرضے ادا کردیے جائیں۔ بس واحد صورت یہ ہے کہ حکومت کے اعلان کے مطابق اس سے سودی قرض لے کر قرض خواہوں کے مطالبات ادا کیے جائیں۔ اس صورت حال میں جواب دینےوالا یہ جواب دے دے گا کہ ایک مجبوری کی صورت معلوم ہوتی ہے اس لیے حکومت سے سودی قرض لے کر دوسرے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کیاجاسکتا ہے۔
ارکان جماعت اسلامی ہند کو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ انھوں نے شعور کے ساتھ ’اقامت دین ‘ کا نصب العین اختیارکیا ہے اور ان کی حیثیت داعیان اسلام کی ہے۔ ان کو کسی حال میں بھی اپنی یہ حیثیت بھولنی نہیں چاہیے۔ (اگست؍ستمبر۱۹۷۸ء، ج ۶۱،ش۲۔۳)