مخالفین کے بے دلیل فتوے

مولانا ... نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے جماعتِ اسلامی کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اور جب تک اس کام میں کام یابی حاصل نہ کر لوں گا دوسرا کام اپنے اوپر حرام سمجھوں گا۔ اسی لیے انھوں نے چند علما کے فتاویٰ لے کر چھپنے کے لیے بھیجے ہیں جن کے ذریعے پروپیگنڈا کیا جائے گا۔ ضروری تصریحات سے جلد ازجلد میری راہ نمائی فرمائی جائے۔
جواب

اب چند کلمات ان فتووں کے متعلق بھی عرض ہیں جو آپ کے ارسال کردہ اشتہار میں درج ہیں اور جناب مولانا مہدی حسن صاحب،مولانا اعزاز علی صاحب اور مولانافخر الحسن صاحب کے قلم سے صادر ہوئے ہیں ۔ان فتووں میں مجرد حکم بیان کیا گیا ہے،دلائل وشواہد درج نہیں ہیں ۔ مولانا مہدی حسن صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ میری کتابوں اور مضامین میں کیا باتیں ’’اہل سنت والجماعت کے طریقے کے خلاف ہیں ‘‘ اور انھوں نے کہاں سے یہ نتیجہ نکالا کہ میں ’’صحابۂ کرام اور ائمۂ مجتہدین کے متعلق اچھا خیال نہیں رکھتا‘‘،اور احادیث کے متعلق میرے کیا خیالات ہیں جو ان کے نزدیک ’’ٹھیک نہیں ہیں ‘‘،اور میں نے کہاں یہ لکھا ہے کہ میں ’’بے عمل مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا‘‘۔ مؤخر الذکر دونوں بزرگوں نے بھی کچھ تھوڑی سی مزید تکلیف گواراکرکے وہ زہر پیش نہیں کیا جو جماعت کی جانب سے شہد میں ملا کر مسلمانوں کو استعمال کرایا جارہا ہے، اور نہ وہ دلائل ارشاد فرمائے جن کی بنا پر وہ مرزائیوں کو جماعتِ اسلامی کے’’اسلاف‘‘ (افسوس کہ دونوں صاحبوں کو شریف آدمیوں کی سی زبان لکھنے کی توفیق بھی میسر نہ ہوئی)قرار دیتے ہیں اور اس جماعت کو ان سے بھی زیادہ دین کے لیے ضررر ساں بتاتے ہیں ۔
اگر یہ اجمال واختصارمحض ’’ضیق وقت‘‘ کی وجہ سے ہے،جیسا کہ انھوں نے بیان فرمایا ہے،تو یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ جن لوگوں کے پاس دلائل ووجوہ بیان کرنے کے لیے وقت نہیں ہے،ان کو دوسروں پر اس قسم کے لغو اور مہمل فتوے جڑنے کے لیے کافی وقت مل جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے فتووں کے لیے کوئی معقول دلیل اپنے پاس نہیں رکھتے،اس لیے انھوں نے محض چند سطری احکام جاری کرکے اپنے بغض کی تسکین کا سامان کیا ہے،تو میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے حق میں خدا سے نیک ہدایت کی دعا کروں ۔ بہرحال آپ موقع پائیں تو ان صاحبوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ آپ پر میرا اور جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا،اور عام مسلمانوں کا یہ اخلاقی حق ہے کہ آپ اپنے فتوے کے دلائل ووجوہ بیان فرمائیں ۔ان کی جو بات حق ہوگی،اسے قبول کرنے میں ان شاء اﷲ دریغ نہ کیا جائے گا۔اور میں اپنی حد تک یقین دلاتاہوں کہ مجھے کبھی۱پنی غلطی تسلیم کرنے میں نہ تأمل ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا، بشرطیکہ میری غلطی دلائل سے ثابت کی جائے نہ کہ سبّ وشتم سے۔ اور اگر انھیں کوئی غلط فہمی لاحق ہوئی ہوگی تو اسے دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔’’ترجمان القرآن‘‘کے صفحات خدمت کے لیے حاضر ہیں ۔جس طرح مولانا حکیم عبدالرشید محمودصاحب گنگوہی کا مضمون بے کم وکاست یہاں شائع کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے،اسی طرح ان کے ارشادات بھی کسی حذف وترمیم کے بغیر درج کیے جائیں گے اور جواب حاضر کردیا جائے گا۔ اشتہار بازوں کے لیے اوچھے ہتھیار فراہم کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے علمی وقار کے ساتھ سامنے تشریف لائیں اور پوری بات کہہ کر دو سرے کا جواب سننے کے لیے تیار ہوں ۔
دوسرے وہ حضرات بھی جو وقتاً فوقتاً اپنی مجلسوں میں میرے اور جماعتِ اسلامی کے خلاف اظہار فرماتے رہتے ہیں ، میری اس گزارش کے مخاطب ہیں ۔ ان سے کہیں سابقہ پیش آئے تو عرض کردیجیے کہ آپ کی شانِ تقویٰ اور جلالتِ قدر کے لحاظ سے یہ طریقہ کچھ موزوں نہیں ہے۔اولیٰ یہ ہے کہ شخص متعلق کو اپنے اعتراضات سے آگاہ فرمایئے تاکہ یا تو اس کی اصلاح خیال ہوجائے یا آپ کی غلط فہمیاں دو ر ہوجائیں ۔ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے اکثر اصحاب نے جماعتِ اسلامی کی مطبوعات کو بالاستیعاب نہیں دیکھا ہے، بلکہ یا تو کچھ نیاز مندوں سے سنی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا ہے یا بعض ہوشیار لوگوں نے خاص خاص عبارتیں پوری ہوشیار ی کے ساتھ انھیں دکھائی ہیں اور انھی کمزور بنیادوں پر بدگمانیوں کے بڑے بڑے قصر تعمیر کرڈالے ہیں ۔اگر یہ حضرات کچھ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرکے اور کچھ اخلاقی جرأت سے کام لے کر ہمیں اپنے اعتراضات سے مطلع فرمائیں ،تو ہم پوری کوشش کریں گے کہ ان کو اپنے موقف سے اچھی طرح آگاہ کردیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اشتہار باز حضرات کو اور ان لوگوں کو جو اپنے رسائل وجرائد میں مسلسل کینہ توزی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،ہم منہ لگانے کے قابل نہیں سمجھتے۔ (ترجمان القرآن، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)