مخالف ماحول میں ہم کیا کریں ؟

میں دینی مزاج رکھتی ہوں ، لیکن میری سسرال والے بالکل دین پسند نہیں ہیں ۔ انہیں نماز روزے سےکوئی مطلب ہے نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ برا مانتے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیسے ان کی اصلاح کروں ؟ میں بہت پریشان ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

۱ - سب سے پہلے اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو دین کا فہم اوراس پر عمل کاجذبہ عطا کیا، ورنہ اس دنیا میں کتنے انسان ہیں جو مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے اورپلے بڑھے ہیں ، لیکن دین سے بالکل بے بہرہ ہیں ۔ انہیں اسلام کے بنیادی عقائد اور تعلیمات کی خبر نہیں ہے ، ان پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے ۔
۲- سب سے پہلے انسان اپنی ذات کا مکلف ہے ۔ روزِ قیامت کسی طرح کی نسبت کام نہیں آئے گی ۔ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے روٗ ـبروٗ تنہا پیش ہوگا :وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً ( مریم۹۵:)۔ ’’وہاں اس کا حساب وکتاب ہوگا اور دنیا میں کیے گئے اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا ملے گی۔
۳- انسان دین پر عمل کررہا ہو، اللہ کی رضا کے مطابق کام کررہا ہواور اس کی معصیت سے بچ رہا ہو تو دوسروں کی گم راہی سے اسے روزِ قیامت کچھ نقصان نہ پہنچے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اگر تم راہِ ہدایت پر قائم ہوتو دوسروں کی گم راہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۝۰ۭ (المائدہ۱۰۵:) قرآن نے اس کی ایک بہت نمایاں مثال پیش کی ہے ۔ فرعون کافر ومشرک اوربہت ظالم وجابر بادشاہ تھا۔ اس کے جہنمی ہونے کی خبر دی گئی ہے ، لیکن اس کی بیوی کوایمان لانے کی توفیق ہوئی تو اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔ (التحریم : ۱۱) اور اس کے شوہر کے گم راہ اور جہنمی ہونے سے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔
۴- آدمی دین کی باتیں دوسروں تک پہنچانے کا مکلّف ہے ۔ وہ یہ کام کردے تو اس نے اپنی ذمے داری پوری کردی ، چاہے دوسرے اس کی بات مانیں یا نہ مانیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر سے بھی کہہ دیا تھا کہ آپ کا کام صرف پہنچا دینا اوراس کی یاد دہانی کرادینا ہے ، آپ داروغہ نہیں ہیں کہ دوسروں کواسے قبول کرنے پر مجبو ر کردیں :فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭ لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ (الغاشیۃ۲۱:۔۲۲)
۵- دعوت میں حکمت ومصلحت کا لحاظ بہت ضروری ہے ، سمجھانے بجھانے کی کوشش ضرور کی جائے، لیکن موقع ومحل دیکھ کر۔ یہ ملحوظ رکھنا بہت ضر وری ہے کہ کون سی بات کہی جائے؟ کس سے کہی جائے اور کب کہی جائے؟
۶- دعا بھی بہت ضروری ہے ۔ آدمی اپنی طرف سے پوری کوشش کرلے، پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا ے کہ میرے بس میں جوکچھ تھا، میں نے کردیا ۔ اب لوگوں کے دلوں کوپھیرنا اوران میں قبول حق کے لیے آمادگی پیدا کرنا تیرا کام ہے۔
ان نکات پر عمل کریں ۔ ان شاء اللہ راہیں نکالیں  گی اورآپ اپنی کوششوں میں کام یاب ہوں گی۔