مردہ جانورکی کھال دھوپ میں سکھادینے سے بھی پاک ہوجاتی ہے

کچھ لوگ مردہ جانوروں (بیل،بھینس،بکری وغیرہ) کی خریدوفروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ان کھالوں کو پہلے خشک کرتے ہیں، اس کے بعد فروخت کرتے ہیں اور خشک کردینا بھی دباغت ہے۔ کیا ان لوگوں کی یہ بات صحیح ہے؟ دباغت توایک صنعت ہے، صرف خشک کردینے سے دباغت کیسے ہوجائے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مردہ بیل اوربھینس کی کھالوں کی خرید وفروخت جائز ہے؟

جواب

دباغت کی دوقسمیں ہیں۔  ایک حقیقی دباغت جو دوائوں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ یہی دباغت ایک صنعت ہے۔ دوسری قسم حکمی دباغت ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ اس کا حکم بھی وہی ہے جو حقیقی دباغت کا ہے۔یعنی اس سے بھی کھال پاک ہوجاتی ہے۔ دھوپ میں یا ہوامیں کھال کو خشک کردینا حکمی دباغت ہے۔ فتاویٰ عالمگیر یہ میں ہے

کل اھاب دبغ دباغہ حقیقیۃ بالادویۃ اوحکمیۃ بالتتریب والتشمیس والالقاء فی الریح فقد طھر وجازت الصلوۃ فیہ والوضوء منہ الاجلد الاٰدمی والخنزیر۔                                            (ج۱،ص۲۵،مطبوعہ مصر،کتاب الطھارۃ)

’’ہرکچا (بے دباغت ) چمڑا جس کو حقیقی دباغت دوائوں کے ذریعہ دی گئی ہویا اس میں مٹی ڈال کریا اس کو دھوپ اور ہوا میں ڈال کر حکمی دباغت دی گئی ہو تو وہ پاک ہوجاتا ہے۔ اس پر نماز ادا کرنا بھی جائز ہوجاتا ہے۔اور اس سے بنے ہوئے کسی ظرف سے وضو کرنا بھی جائز ہوجاتاہے سوائے آدمی اور سور کی کھال کے۔‘‘

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حقیقی دباغت میں دوائیں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں اور حکمی دباغت کے تین طریقے ہیں  کھال کو مٹی سے یا دھوپ سے یا ہوا میں ڈال کر خشک کردینا۔ اس طرح اس کھال پرنماز بھی جائز ہوجاتی ہے۔اور اگر اس کھال سے مشک یا کوئی اور ظرف بناکر اس میں پانی رکھا جائے تو اس پانی سے وضو بھی جائز ہوجاتا ہے۔ دوسری بات اس عبارت سے یہ معلوم ہوئی کہ آدمی یا سور کی کھال نہ حقیقی دباغت سے پاک ہوتی ہے اور نہ حکمی دباغت سے۔ فقہ کی دوسری عبارتوں میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ آدمی کی کھال تو اس لیے مستثنیٰ قراردی گئی ہے کہ آدمی ایک محترم ہستی ہے خواہ مسلمان ہو یا غیرمسلم۔  اس لیے اس کی کھال کھینچ کر اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے اور سور کی کھال اس لیے مستثنیٰ کی گئی ہے کہ وہ نجس العین ہے، اس کی کھال کسی دباغت سے پاک نہیں ہوتی۔ حلال جانور جیسے بکری اگر مرجائے تو اس کی کھال کو دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرنے کی ترغیب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب مردہ جانور کی کھال کو دباغت دے دی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا ہے۔(مشکوٰۃ بحوالہ مالک وابودائود) اور آپ نے خود اس سے فائدہ اٹھایا بھی ہے۔(مشکوٰۃ بحوالہ احمد وابودائود)

اس زمانے میں کچی کھالوں کا کاروبار کیا جارہاہے۔اور اب ان سے عام طورپر فائدہ اٹھانے کی یہی صورت ہے کہ ان کو خریدا جائے۔ ایسی صورت میں ان کو دباغت دے کر بیچنے کی نیت سے خریدنا میرے خیال میں جائز ہے اور جب خریدنا جائز ہوگا تو پھر دباغت دے کر ان کو فروخت کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔                                               (جولائی۱۹۷۴ء،ج۵۳،ش۱)