جواب
سرِدست اس معاملے میں ہماری پالیسی یہ ہے:
(۱)جو مزدور یا محنت پیشہ لوگ ہمارے مسلک سے متاثر ہوں وہ ہڑتال کے زمانے میں کام پر تو نہ جائیں لیکن ہڑتالوں کے ہنگاموں اور مظاہروں سے بھی الگ رہیں ۔
(۲) جن مطالبات کے لیے ہڑتال کی گئی ہو ،ان کے متعلق یہ راے قائم کریں کہ آیا وہ منصفانہ ہیں یا غیر منصفانہ۔
(الف) منصفانہ مطالبات کو تمام جائز ومعقول اور پُرامن طریقوں سے تسلیم کرانے میں حصہ لیں مگر کسی فساد اور جھگڑے میں حصہ نہ لیں ۔
(ب) غیرمنصفانہ مطالبات کے معاملے میں اپنے ہم پیشہ ہڑتالیوں سے صاف کہہ دیں کہ ہم تمھارے مطالبات کو صحیح نہیں سمجھتے، لیکن ہم قصداً تمھاری ہڑتال کو ناکام بنانے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے، اس لیے جب تک تم کام پر نہ جائو گے ہم بھی نہیں جائیں گے۔
(ج)اگر مطالبات کا کچھ حصہ منصفانہ اور کچھ حصہ غیر منصفانہ ہو تو ہڑتالیوں اور مستأجروں (employers) دونوں کو مطلع کردیں کہ ہم ان مطالبات کے اتنے حصے کو صحیح اور اتنے حصے کو غلط سمجھتے ہیں ۔
(۳) جب کبھی کسی ہڑتال میں ،یا مزدوروں کی کسی تحریک کے سلسلے میں سوشل ازم کے نظریات کارفرما نظر آئیں ،مثلاً مطالبات کی بنیاد یہ بیان کی جارہی ہو کہ طبقاتی جنگ ایک تاریخی تقاضا ہے، یامقصد ونصب العین یہ پیش کیا جارہا ہو کہ تمام ذرائع پیدا وار پر سے شخصی ملکیت ختم کردی جائے اور انھیں قومی ملکیت بنادیا جائے، تو ایسے کسی موقع پر خاموش نہ رہنا چاہیے بلکہ ان نظریات کی کھلم کھلا تردید کرنی چاہیے اورمزدوروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ نظریات بجاے خود بھی غلط ہیں اور ان میں تمھاری اپنی فلاح بھی درحقیقت مضمر نہیں ہے۔ ان کے بجاے زیادہ صحیح اُصول یہ ہیں جو اسلام پیش کرتا ہے۔ حقیقی انصاف اگرقائم ہوسکتا ہے تو ان اُصولوں پر ہی ہوسکتا ہے ۔
آخرکار جو چیزہمارے پیشِ نظر ہے ،وہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں اشتراکیوں کے زیر اثر نہ رہیں بلکہ ہمارے زیراثرآجائیں ، تاکہ ہم طبقاتی جنگ کے بجاے طبقاتی صلح اور مارکسی اشتراکیت کے بجاے اسلامی عدل کے اُصولوں پر محنت پیشہ طبقوں کو ان کے جائز حقوق دلواسکیں ۔ (ترجمان القرآن،جون ۱۹۴۶ء)