مسئلہ تقدیر

مشکٰوۃ باب الایمان بالقدر میں ذیل کی متفق علیہ حدیث وارد ہے: إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ… ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ المَلَكُ فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَكْتُبُ: رِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَعَمَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ…({ FR 2001 }) ’’یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اُس کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے… پھر اﷲتعالیٰ اُس کی طرف ایک فرشتے کو چار باتیں دے کر بھیجتا ہے۔چنانچہ وہ اس کے عمل، عمر،رزق اور شقاوت وسعادت کے بارے میں نوشتہ تیار کردیتا ہے اور پھر اس میں روح پھونک دیتا ہے۔‘‘ اب سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان سارے معاملات کا فیصلہ ماں کے پیٹ میں ہی ہوجاتا ہے تو پھر آزادی عمل اور ذمہ داریِ عمل کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟عام طور پر ایسی ہی احادیث سن لینے کے بعد لوگ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں ۔
جواب

تقدیر کے مسئلے میں آپ کو جو اُلجھن ہے،اُسے چند لفظوں میں دُور کرنا مشکل ہے۔آپ اگر پوری طرح سمجھنا چاہیں تو میری کتاب’’مسئلہ جبر وقدر‘‘ ملاحظہ فرمایئے۔
حدیث کے بارے میں یہ بات آپ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی مسئلے کے سارے پہلو کسی ایک ہی حدیث میں مذکور نہیں ہوتے،اس لیے جو شخص صرف ایک دو روایتوں کو لے کر ان سے کوئی نتیجہ نکالنا چاہے گا وہ غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجائے گا۔ جو اُلجھن آپ کو ایک حدیث سے پیش آئی ہے،اُس سے بہت زیادہ اُلجھنیں اس صورت میں پیش آئیں گی جب کہ قرآن کی کسی آیت سے آپ کوئی بڑا مسئلہ حل کرنا چاہیں گے۔ اسی مسئلۂ تقدیر سے متعلق قرآن مجید کی کوئی آیت سراسر جبر کا پہلو پیش کرتی ہے اور کوئی دوسری آیت انسانی اختیار کی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ جبر اور اختیار،دونوں ہی بیک وقت انسانی زندگی کے ہر گوشے میں اس طرح پائے جاتے ہیں کہ اگر مجرد ایک کو الگ کرکے دیکھا جائے تو دوسرے کا کوئی مقام باقی رہتا نظر نہیں آتا۔حالاں کہ ایک کو دیکھنے کے ساتھ یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ دوسری حقیقت کا جو مقام ہے،وہ بھی اپنی جگہ بحال رہے۔مسئلہ تقدیر کی ہر وہ تعبیر جو حقیقت کے ایک رُخ کو دوسرے رُخ کی قطعی نفی کا ذریعہ بنا دے،وہ کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہے کہ اہل علم مسائل دین کے متعلق ایک جامع نظریہ قائم کرنے کے لیے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ ایک مسئلے پر جتنی آیات واحادیث سے روشنی پڑتی ہو،ان سب کو نگاہ میں رکھا جائے۔
جس خاص حدیث کے بارے میں آپ نے اپنی اُلجھن بیان فرمائی ہے،اُس پر آپ اس پہلو سے غور فرمایئے کہ اﷲ تعالیٰ جو بے شمار مخلوق روزانہ پیدا فرما رہا ہے،اگر اُس کو ان میں سے ہر ہر چیز کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کس چیز کی کیااستعداد ہے، کس کا دنیا میں کیا کام ہے، اور کس کو نظام کائنات میں کس جگہ رہنا ہے اور کیا خدمت سرانجام دینی ہے،تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ(معاذ اﷲ) اس بے خبری کے ساتھ ایک دن بھی اس عظیم الشان کائنات کا انتظام چلا سکتا ہے؟ یہ بات آخر کس طرح باور کی جاسکتی ہے کہ دنیا کا خالق اور مدبر اپنی مخلوق کے حال اور مستقبل سے لا علم ہو؟یہ تک نہ جانتا ہو کہ کل اُس کی سلطنت میں کیا کچھ پیش آنے والا ہے اور اُس کو کسی کے اچھے یا برے ارادے کا صرف اُسی وقت علم ہو جب وہ اپناکام کر گزرے! یہ بات نہ صرف خلاف عقل ہے بلکہ اگر آپ اس کے نتائج پر غور کریں تو ان اُلجھنوں سے بہت زیادہ اُلجھنیں اِ س سے پیدا ہوتی ہیں جو پیشگی نوشتۂ تقدیر کی خبرسن کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوئی ہیں ۔پس یہ تو بہرحال ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ جملہ مَا کَاَنَ وَمَا یَکُونُ کا علم رکھتا ہے اور ہر متنفس کا مستقبل اُسے معلوم ہے۔اﷲ کا علم اﷲ کی قدرت کی نفی نہیں کرتا۔اﷲ کی قدرت نے ہر انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بھلائی اور برائی میں سے جس چیز کو چاہے انتخاب کرلے،اور اﷲ کا علم یہ جانتا ہے کہ کون شخص کیا کچھ انتخاب کرے گا۔غلطی سے اس ذات پاک کا علم منز ہ ہے اور عجز سے اُس کی قدرت منزہ۔
رہی یہ بات کہ لوگ عقیدۂ تقدیر کو غلط معنی میں لے رہے ہیں اور اس کے برے نتائج نکل رہے ہیں ، تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک حقیقت کو اس کی وجہ سے بدل ڈالا جائے، نہ حقیقتیں اس بنیاد پر بدل سکتی ہیں کہ لوگ ان کے سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں ۔ غلطی حقیقت کی نہیں بلکہ لوگوں کی سمجھ کی ہے اور وہی اصلاح طلب ہے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۵۲ء)