جواب
حیات النبیﷺ کے بارے میں آج کل جس طریق پر علماے کرام کے مابین بحث چل رہی ہے،اس کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ اس کا کچھ حاصل ہی ہے۔ عقیدے کی حد تک ہمارا اس بات پر ایمان کافی ہے کہ آں حضور ﷺ اﷲ کے نبی ہیں اور آپﷺ کی ہدایت ابد تک کے لیے کامل ہدایت ہے۔ عمل کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ہم آں حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں ، جسے معلوم کرنے کی خاطر قرآن اور سنت ہمارا مرجع ومنبع ہے۔ اب آخر اس بحث کی حاجت ہی کیا ہے کہ نبی کریمؐ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کس معنی میں زندہ ہیں ۔ برزخی وروحانی حیات ہو یا جسمانی حیات،بہرحال اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آں حضرت ﷺ کا ۱۱ ہجری میں وصال ہوچکا ہے ،اُمت کی ہدایت کے لیے آپ بنفس نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ،اور آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کی ذات اقدس کی طرف رجوع کرنے کے بجاے قرآن اور حدیث ہی کی طر ف رجوع کرنا ہے۔ حیات برزخی یا حیات جسمانی کی بحث کا کوئی بھی فیصلہ ہو، اس سے اس امر واقعہ میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔
پھر یہ بحث اس لیے بھی غیر ضروری اور لاطائل ہے کہ ہم اس خاص معاملے میں کوئی متعین عقیدہ رکھنے کے لیے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے مکلف ہی نہیں کیے گئے ہیں ۔ اگر کوئی مسلمان اس مسئلے سے بالکل خالی الذہن ہو یا اس میں راے قائم کیے بغیر مرجائے تو اس کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا،نہ آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے حیات نبی کے برزخی وجسمانی ہونے کے بارے میں کیا عقیدہ رکھا تھا۔ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور قطعی ہدایت اس باب میں نہیں دی گئی جو ہمیں ایک خاص عقیدہ رکھنے کا پابند کرتی ہو،نہ یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان زیر بحث تھا، نہ آں حضور ﷺ کے جانشینوں نے کسی کو اس معاملے میں کوئی خاص عقیدہ رکھنے کی کبھی تلقین کی۔
میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حیات النبیؐ کے مسئلے میں حضرات علما وہی غلطی کررہے ہیں جو خلق قرآن کے مسئلے میں خلیفہ مامون نے کی تھی۔ یعنی جس چیز کو اﷲ اور اس کے رسولؐ نے اسلام کا ایک عقیدہ اور ایمانیات کا ایک رکن نہیں قرار دیا تھا اور نہ جسے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کی نجات کا مدار رکھا تھا،اور نہ جس پر اعتقاد رکھنے کی خلق کو دعوت دی تھی،اسے خواہ مخوا ہ عقیدۂ اسلام اور رکن ایمان بنایا جارہا ہے،اس کے ماننے یا نہ ماننے کو مدار نجات قرار دیا جارہا ہے، اس پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی جارہی ہے، اور اعتقاد نہ رکھنے والوں کی تکفیر وتفسیق کی جارہی ہے۔دین میں جن چیزوں کی یہ حیثیت تھی ان کو صاف صاف اور حتمی طور پر بیان کردینے میں اﷲ اور اس کے رسولؐ نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور علیٰ رؤوس الأشہاد ان کی طرف دعوت دی ہے۔یہ مسئلہ ہرگز ان مسائل میں سے نہیں ہے اور اسے زبردستی ان مسائل میں شامل کرنا یا ان کا سا درجہ دینا کلیتاً غلط کاروائی ہے۔اگر کوئی شخص اس مسئلے میں قطعاً خالی الذہن ہو یا اس کے بارے میں کوئی عقیدہ و راے نہ رکھتا ہو،اس سے قیامت میں کوئی باز پرس نہ ہوگی اور اس کے انجام اخروی پر اس عدم راے یا خلوئے ذہن کا کوئی اثر مترتب نہ ہوگا۔ البتہ خطرے میں وہ شخص ہے جو اس مسئلے میں ایک عقیدہ قائم کرتا اور اس کی تبلیغ کرتا ہے، کیوں کہ اس کے عقیدے میں صحت اور عدم صحت دونوں کا احتمال ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۵۹ء)