جواب
آپ نے سوالات جس ترتیب سے کیے ہیں اس ترتیب سے جواب دینے کی جگہ اصل مسئلہ کی تھوڑی سی وضاحت کی کوشش کروں گا۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ بحث میڈیا میں اس طرح جاری ہے جیسے علماء اسلام آج ایک نئی صورت حال سے دوچار ہیں ۔ بعض علماء نے حالات کے دباؤ کے تحت عورتوں کو ان کا وہ حق دیا ہے جو انھیں حاصل نہیں تھا اور بعض اس کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ حالاں کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس سلسلے کی ہدایات صحیح احادیث میں موجود ہیں اور فقہاء کرام نے اس پر تفصیل سے غور کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اذا استأذنت امراۃ احدکم الی المسجد فلا یمنعھا۱؎
جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔
احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے عہدِ مبارک میں خواتین مسجد جایا کرتی تھیں ۔ دوسری طرف احادیث ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ چناں چہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہی کی حدیث ہے:
لاَ تمنعوا نساء کم المساجد و بیوتھن خیر لھن۲؎
یعنی اپنی عورتوں کو مساجد میں جانے سے منع مت کرو، لیکن ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔
روایات میں یہاں تک آتا ہے کہ عورت کے لیے بہتر اور افضل ہے کہ وہ اپنے گھر میں بھی کسی کوٹھری میں نماز ادا کرے۔۳؎
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے عورتوں کے مسجد جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پر آپ نے لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ اس کے بالمقابل صحیح روایت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ اپنے صاحب زادے کی اس بات پر سخت ناراض ہوئے تھے کہ وہ عورتوں کے مسجد آنے پر پابندی لگانا چاہتے تھے۔ یہاں آپ سے ایک چوک ہوگئی ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے جس واقعے کا ذکر کیا ہے وہ حضرت عمرؓ کا نہیں ، بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جب یہ حدیث سنائی کہ عورتوں کا مسجد میں حصہ ہے، اس سے انھیں منع نہ کرو تو ان کے صاحب زادے بلالؓ نے کہا:
’’خدا کی قسم ہم تو ضرور منع کریں گے۔‘‘ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ خفا ہوگئے کہ میں تمھیں رسولِ خداؐ کا ارشاد سنا رہا ہوں اور تم اس کے مقابلے میں اپنی بات پر اصرار کر رہے ہو۔ ۱؎
در حقیقت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اپنے صاحب زادے کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ ورنہ وہ بھی جانتے تھے کہ عورت کو مسجد جانے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا آدمی کو حق حاصل ہے۔
فقہاء کرام نے حالات اور زمانے کے بگاڑ کی وجہ سے عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کیا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین پانچوں وقت مردوں کے ساتھ مسجد آنے جانے لگیں تو موجودہ بگڑے ہوئے حالات میں بہت سے ناپسندیدہ واقعات پیش آسکتے ہیں ۔ فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر عورت سن رسیدہ ہو، بن سنور کے نہ نکلے اور ایسے اوقات نہ ہوں جب کہ مفسد اور بد اخلاق لوگ گھومتے پھرتے ہیں تو وہ مسجد جاسکتی ہے۔
ظاہر ہے اس کا فیصلہ حالات ہی کے پیش نظر کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی جگہ عورتیں مسجد بالعموم جاتی ہوں اور وہاں اخلاقی خرابیوں کا اندیشہ بھی نہ ہو تو میری رائے یہ ہے کہ اس کی گنجائش ہونی چاہیے۔
رسولِ اکرم ﷺ کے دور میں نماز جمعہ کے لیے عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں ۔ عیدین میں بھی ان کی شرکت کا ثبوت موجود ہے۔ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اس لیے جہاں کسی خطرہ کا اندیشہ نہ ہو عورتیں ان نمازوں میں شریک ہوسکتی ہیں ۔ آج بھی بعض مقامات پر اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دینی مصالح کا تقاضا ہو جیسے مسجد میں وعظ و نصیحت کی مجلس ہو رہی ہو اور ان کے لیے الگ نظم ہو، تو اس میں ان کی شرکت ہوسکتی ہے۔ آخر میں یہ گزارش ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز اداکرنا عورت کے لیے نہ فرض اور واجب ہے اور نہ اس کا استحباب ہی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے ایک مسئلہ پر زور دینا، فقہی اختلافات کو ابھارنا اور اس کے لیے تحریک چلانا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ یہ دین و ملت کی کوئی مفید خدمت نہیں ہے۔