جواب
شریعت میں مسجد کے لیے کوئی خاص طرزِ تعمیر مقرر نہیں ہے، اس لیے کسی خاص طرز پر مسجد بنانا نہ فرض ہے نہ ممنوع۔ صاحب مضمون کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جس طرز پر حضور ﷺ نے مسجد نبوی ابتداء ً تعمیر فرمائی تھی، تمام مساجد ہمیشہ کے لیے اسی طرز پر تعمیر ہونی چاہییں ۔ مختلف مسلمان ملکوں میں مساجد کی تعمیر کے لیے ہمیشہ سے مختلف ڈیزائن اختیار کیے جاتے رہے ہیں ۔ ان میں جس قاعدے کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسجد کی شکل عام عمارات سے اتنی مختلف ہو اور اپنے ملک یا علاقے میں ایسی جانی پہچانی ہو کہ اس علاقے یا ملک کا ہر شخص دور سے اس کو دیکھ کر یہ جان لے کہ یہ مسجد ہے اور اسے نماز کے وقت مسجد تلاش کرنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے۔ اسی قاعدے کے مطابق دنیا کے مختلف ملکوں میں مسجد کا ایک خاص طرزِ تعمیر ہوتا ہے اور اس کے لیے ایسی نمایاں علامات رکھی جاتی ہیں جو ان ملکوں میں مسجد کی امتیازی علامات ہونے کی حیثیت سے معروف ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی مساجد کا بالعموم ایک طرزِ تعمیر رائج ہے۔ اس کو بدل کر بالکل ایک نرالا طرزِ تعمیر رائج کرنا اور اس کے لیے مسجد نبوی کے ابتدائی طرز سے استدلال کرنا خواہ مخواہ کی اپچ ہے۔
رہا منبر، تو یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے خود مسجد نبویؐ میں لکڑی کا منبر بنوایا تھا({ FR 2189 }) تاکہ خطبہ دیتے وقت بڑے مجمع میں خطیب سب لوگوں کو نظر آسکے۔
محراب مسجدوں میں تین مصلحتوں سے رکھی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ آگے چونکہ صرف امام کھڑا ہوتا ہے اس لیے تھوڑی سی جگہ اس کے لیے زائد بنا دی جاتی ہے تاکہ محض ایک آدمی کے لیے پوری ایک صف کی جگہ خالی نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ محراب کی وجہ سے امام کی آواز پیچھے کی صفوں تک پہنچنے میں سہولت ہوتی ہے۔ تیسری مصلحت یہ ہے کہ محراب بھی مسجد کی امتیازی علامات میں سے ہے۔ کسی عمارت کو آپ پشت کی طرف سے بھی دیکھیں تو اس میں محراب آگے نکلی دیکھ کر فوراً پہچان جائیں گے کہ یہ مسجد ہے۔ یہی مصلحت مسجد پر مینار وغیرہ بنانے کی بھی ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری۱۹۶۷ء)