ہم چند مسلمان یہاں موجود ہیں۔ یہاں کی اکثریت ہندوئوں اورعیسائیوں کی ہے۔ وہ لوگ بکراذبح نہیں کرتے بلکہ جھٹکا کھاتے ہیں۔ لیکن ہم مسلمان بغیر ذبح کے حرام جانتے ہیں۔ ان کا اعتراض ہے کہ ہم لوگ آپ کے ذبح کردہ بکرے کا گوشت کھالیتےہیں مگر آپ لوگ جھٹکا کیوں نہیں کھاتے۔ آخر کیا وجہ ہے؟ جواب دیا گیا مگر انھیں ہمارے جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ اس کا تشفی بخش جواب دیجیے۔
جواب
اس سوال کا حقیقی جواب یہ ہےکہ مسلمان جھٹکا اس لیے نہیں کھاتے کہ وہ مسلمان ہیں۔ یعنی سوال ہی میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔مسلمان اس کو کہتے ہیں جو اللہ پر، اس کے رسولوں پر،اس کی کتابوں پر،آخرت پراور اس کے بھیجے ہوئے دین اسلام پرایمان رکھتا ہے۔اسلام صرف نماز روزہ کانام نہیں ہے بلکہ وہ زندگی کامکمل قانون ہے جو اللہ نے اپنے آخری رسول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانوں کو عطا فرمایا ہے۔ اس میں زندگی کے ہرمعاملے کے بارے میں احکام دیے گئے ہیں۔ دین اسلام میں اللہ کو صرف معبود ماننا ضروری نہیں ہے بلکہ اسی کو حاکم، شریعت اورقانون دینے والا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے اور مسلمان اس شریعت پرعمل کرنے کا پابند ہے۔ کھانے پینے میں کیا حلال اور کیا حرام ہے؟اس کے بنیادی احکام بھی قرآن میں دیے گئے ہیں۔ آپ سے جو سوال کیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی قرآن کے اندر صریح اور واضح ہدایات موجود ہیں۔ سورۂ الانعام میں اس مسئلے کے بارے میں جو آیت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے
’’اس جانور کا گوشت نہ کھائو جس پر اللہ کا نام نہ لیاگیا ہو۔ یہ گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں شبہے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اوراگر تم نے اس معاملے میں ان کی اطاعت کی تو بے شک تم مشرک ہو۔‘‘ (آیت۱۲۱)
غورسے پڑھیے، کتنی سختی کے ساتھ اس جانور کا گوشت کھانے سے روکا گیا ہے جس کو اللہ کانام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب مکہ کے کافروں نے اعتراض کیا تھا کہ مسلمان جس جانور کو خود مارتے ہیں اس کا گوشت کھاتے ہیں اور جس کو خدا مارتا ہے یعنی طبعی موت مرتا ہے اس کا گوشت نہیں کھاتے۔ وہ لوگ چوں کہ مردار کھاتےتھے اس لیے انھوں نے یہ اعتراض کیا تھا۔ یہ ٹھیک اسی قسم کا اعتراض تھا جیسا آپ لوگوں پرکیا گیا ہے۔ ایک ہی بکرا ہے کہ طبعی موت مرجائے تو حرام اوراللہ کا نام لے کر ذبح کردیا جائے تو حلال۔ اسی طرح اس کا جھٹکا کردیا جائے تو حرام اور اللہ کا نام لےکر ذبح کردیا جائے تو حلال۔ اس اعتراض کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ حلال اور حرام قرار دینا اللہ کا حق ہے۔ مسلمان اللہ پر ایمان لائے ہیں اس لیے اللہ ہی کی اطاعت ان کو کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں کسی مشرک کی اطاعت خلاف ایمان ہوگی۔ مردار ہی کی طرح وہ جانور بھی حرام ہے جس پر اللہ کے سو ا کسی اور کانام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔ اللہ ہی سب کا خالق اور حقیقی مالک ہے اس لیے اسی کو اس کا حق ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے۔ یہ معلوم نہیں کہ آپ نے کیا جواب دیا تھا؟ اگر یہی جواب دیا تھا اور اعتراض کرنے والوں کی تشفی نہیں ہوئی تو ان کی تشفی کی فکر نہ کیجیے۔ یہاں اس بات کی منظم کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کردیاجائے۔ اگر کوئی مسلمان کسی جینی مذہب کو ماننے والے سے کہے کہ ہم تمہاری پکائی ہوئی سبزی ترکاری کھالیتے ہیں تو تم ہمارا پکا ہوا گوشت کیوں نہیں کھاتے تو اس کا جواب وہ یہ دے گا کہ جیوہتیا اس کے مذہب میں حرام ہے اس لیے وہ کسی جانور کا گوشت نہیں کھاتا۔ اسی طرح کوئی عیسائی کسی مسلمان سےکہے کہ ہم تمہارے بکرےکا گوشت کھالیتے ہیں تو تم ہمارے سورکا گوشت کیوں نہیں کھاتے تو اس کا حقیقی جواب یہی ہوگا کہ سور کا گوشت کھانا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ طبی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے سور کا گوشت اور جھٹکا کی چند خرابیاں بیان کرنا حقیقی جواب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس بیان سے بھی جھٹکا اور سور کھانے والوں کی تشفی نہیں ہوتی۔ (اپریل ۱۹۶۸ء،ج۴۰،ش۴)