مشترکہ خاندان یا علیٰحدہ خاندان

میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں۔ تحریکی خاتون ہوں۔ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بہت فکر مند رہتی ہوں۔ میری سسرال کے دیگر رشتے داروں کے درمیان چپقلش رہتی ہے۔ اس سے میرے بچے متأثر ہو رہے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے شوہر سے علیٰحدہ گھر کا مطالبہ کر رہی ہوں، لیکن وہ جماعت کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علیٰحدہ گھر کا مطالبہ خاندان کے دیگر ممبران کو جماعت سے دوٗر کردے گا۔ گذشتہ نو برسوں سے عجب مخمصے میں ہوں۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ محترم مسلہ ہذا کے سلسلے میں رہنمائی فرمائیں، تاکہ شوہر کو علیٰحدہ گھر کے لیے راضی کر سکوں۔

جواب

نکاح کے بعد شوہر کی ذمے داری ہے کہ وہ بیوی کی روز مرّہ کی ضروریات پوری کرے اور اس کے لیے رہائش کا انتظام کرے۔ فقہی اصطلاح میں اسے’نفقہ‘ اور’ سکنٰی‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ(الطلاق:۶)

’’ان کو اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسّر ہو۔‘‘ ’’ان کو اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسّر ہو۔‘‘ یہ حکم طلاق کے پس منظر میں دیا گیا ہے کہ جس عورت کو طلاق دے دی گئی ہو اس کے لیے عدّت کے دوران میں رہائش فراہم کرنا شوہر پر لازم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا بہ درجۂ اولیٰ شوہر کی ذمے داری ہے۔ایسی رہائش بیوی کا حق ہے جس میں وہ آزادی کے ساتھ رہ سکے۔جہاں شوہر کے ساتھ خلوت کے اسے پورے مواقع حاصل ہوں، کسی اور کا عمل دخل نہ ہو، اس کی اپنی ملکیت کی چیزیں محفوظ رہیں نیز اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس میں تصرّف نہ کرسکے۔اسلامی نقطۂ نظر سے علیٰحدہ خاندان مطلوب ہے یا مشترکہ خاندان کی بھی اجازت ہے؟ اس سلسلے میں ہمارے درمیان افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ بعض حضرات علیٰحدہ خاندان پر زور دیتے ہیں اور مشترکہ خاندان کو یک سر غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ خاندان کے دونوں ڈھانچوں (Structures)میں کچھ خوبیاں ہیں تو کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں۔ خامیوں سے بچتے ہوئے کسی بھی صورت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہو تو بیوی بچوں کے لیے علیٰحدہ گھر کا انتظام کیا جائے اور اگر مشترکہ خاندان میں رہائش ہو تو ہر خاندان کے لیے گھر کا ایک حصہ خاص ہونا چاہیے، جو پوری طرح صرف اس کے اختیار اور استعمال میں ہو۔ ایسا کرنے سے بیوی کو ’حق سکنیٰ‘ حاصل ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اس کی جانب سے ہر حال میں علیٰحدہ گھر کا مطالبہ درست نہیں۔ بچوں کی تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ بچے اگر ایسے ماحول میں پروان چڑھیں گے، جہاں لڑائی جھگڑے ہوتے ہوں، گالم گلوج ہو، حقوق کی پامالی ہوتی ہو اور افرادِ خاندان کے درمیان خوش گوار تعلقات نہ ہوں تو اس کا اثر لازماً ان پر پڑے گا اور صحیح طریقے سے ان کی تربیت نہیں ہوسکے گی۔ اس کے بارے میں ماں باپ دونوں کو فکر مند ہونا چاہیے۔ اگر کسی وجہ سے باپ کی توجہ اس جانب نہ ہو تو ماں کو اقدام کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں نرمی کے ساتھ اپنے شوہر سے بات کرنی چاہیے۔ مشترکہ خاندا ن میں رہنے سے بچے لازماً بگڑ جائیں گے اور علیٰحدہ خاندان میں رہنے سے یقینی طور پر ان کی اچھی تربیت ہوگی، یہ ضروری نہیں ہے۔ تربیت کا تعلق والدین کی فکرمندی اور ان کے ذیعے بچوں کی نگرانی، وقتاً فوقتاً افہام و تفہیم، دینی پروگراموں میں شرکت کرانے اور اچھا لٹریچر مطالعہ کرنے کے لیے فراہم کرنے سے ہے۔ والدین کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

January 2025