ایک مسئلے میں آپ کی رائے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔امید ہے کہ آپ جواب سے نوازیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں یونیورسٹی میں خاصی تعداد میں مسلمان لڑکے ہیں۔ کم ازکم سب ملاکر چالیس پچاس کے قریب ہندوستان سے دو۔پاکستان سے ۱۰۔۱۱ ہیں بنگلہ دیش سے ۸۔۱۰ہیں۔ انڈونیشیا، ملیشیا سے ۱۲۔۱۴ ہیں۔ ترکی، ایران، اردن، لیبیا اور دوسرے ممالک کے بھی لڑکے موجود ہیں۔
یہاں جو گوشت ملتا ہے (سورکے گوشت کو چھوڑئیے) مشینوں کا ذبح کیاہوا ہوتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے میں تین رائیں ہوگئی ہیں
۱-چوں کہ مجبوری ہے اورموسم کی شدت کی وجہ سے گوشت کا استعمال لازمی ہے اس لیے یہ مشینری کا ذبح کیا ہوا گوشت جائز ہے۔(بکری، بھیڑ،گائے،مرغ وغیرہ)
۲- اللہ تعالیٰ نے دین کو یسر بنایا ہے، عسرنہیں۔ دوسرے، اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے، اس لیے یہ گوشت جائز ہے۔ عموماً یہاں آنے والے مسلمان لڑکے جن خاندانوں سے آتے ہیں وہاں اسلام کا زیادہ چرچایا اس سے کوئی شغف نہیں ہوتا اس لیے وہ لڑکے حرام حلال کی تمیز کیے بغیر یہی گوشت استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سور کا گوشت توخرید کراستعمال نہیں کرتے لیکن بقیہ کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ میرے ساتھ بنگلہ دیش کے ایک صاحب ہیں وہ میرے منع کرنے کے باوجود اسے مستقل استعمال کررہے ہیں۔
میری رائے میں تو یہ گوشت چوں کہ ذبیحہ کانہیں ہے۔ اس لیے اس کا جواز نہیں نکالا جاسکتا۔ میں اب تک اس سے اجتناب کررہاہوں اور صرف ترکاریوں پرگزرکرنے کا ارادہ ہے۔
اردن کے ایک نوجوان جو ماشاء اللہ خاصے پرجوش اوراسلام پسند ہیں بلکہ اسلامی ذہن کے بھی مالک ہیں، اس رائے کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ جائز کیا ہے۔ اوردین میں عسر کی جگہ یسر ہے۔ اس لیے اس گوشت کے حلال ہونے میں شبہ نہیں۔ یہاں دوتین باتیں اوربھی اس سے متعلق ہیں جو سامنے رہیں تو بہتر ہے۔
۱-یہودیوں کےہاتھ کا ذبیحہ’کوشیر‘کے نام سے ملتا ہے لیکن ہرجگہ نہیں۔
۲- عموماً یہ قیمت میں زیادہ ہوتاہے اس لیے کہ زیادہ فروخت نہیں ہوتا۔ جو چیز زیادہ بکتی ہے وہ کم قیمت میں دستیا ب ہوتی ہے۔
۳-بغیرگوشت کے شمالی امریکہ کے اکثر حصوں میں سردیوں میں گزارامشکل ہے۔
۴-یہاں ہندوستان کا حال نہیں کہ شہر سے باہر نکلے، دیہات سے مرغ، مرغی خرید لائے اور ذبح کرالیا۔ مرغ مرغیاں کم سے کم میر ی کوششوں کے باجود اب تک فراہم نہیں ہوسکی ہیں۔ یہاں عموماً فارم ہوتے ہیں اوروہ بڑے پیمانے پر یہ کاروبار کرتے ہیں۔ ایک دومرغ دینا ان کے تجارتی اصولوں کے خلاف ہے۔
کوشش کررہاہوں کہ مسلمان لڑکوں کے لیے ذبیحہ کے گوشت کا انتظام ہوجائے۔ توکسی فارم سے ایک بھیڑیا بکراباقاعدہ ذبح کراکے اس کے مختلف حصے لوگوں کو بٹوادیے جائیں۔ ہرلڑکے کے پاس ریفریجریٹر ہوتاہے اس لیے ۱۵۔۲۰دنوں تک استعمال ہوسکتا ہے۔آج ہی اس تجویز پرغورہواہے۔ دیکھیے کیاشکل پیداہوتی ہے۔
خدا کا شکرہے کچھ مسلمان خاصے جان دار ہیں۔ ایک مقامی نیگرہ مسلمان،ایک ترکی کے نوجوان، ایک اردن کے اور ایک فلپائن کے مسلمان پروفیسر خاصے اسلام پسند ہی نہیں، فعال بھی ہیں۔ مسلم طلبہ کی شاخ بھی کام کررہی ہے اگرچہ ابھی بہت متحرک نہیں۔
جواب
آپ نے جو مسئلہ بھیجا اور میری رائے دریافت کی ہے وہ ہراس مسلمان طالب علم کے سامنے آتا ہے جویورپ یا امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے اور حلال وحرام کی تمیز بھی رکھتا ہے۔ عرصہ ہوا شکاگو کے ایک طالب علم کا یہی سوال میرے پاس آیاتھا اور میں نے زندگی اگست ۱۹۶۶ء کے رسائل ومسائل میں اس کا جواب بھی شائع کیاتھا۔اس مسئلہ سے متعلق اب تک میں نے جو کچھ مطالعہ کیا ہے اس کی بناپر میری بھی یہی رائے ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر مشینوں سے جو جانور قتل کیے جاتے ہیں ان کا گوشت حرام ہے۔ آپ نے اس مسئلہ کے بارےمیں جو تین رائیں لکھی ہیں ان میں دوسری رائے صحیح ہے اور خود آپ کی رائے بھی وہی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ آپ وہاں ویجی ٹیرین بن جائیے الا یہ کہ کبھی یہودیوں کے ذبیحے کاگوشت آپ کو مل جائے یا آپ اپنی اس کوشش میں کام یاب ہوجائیں جس کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کیا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس مسئلہ پر ایک سیرحاصل مقالہ لکھا تھا جو ترجمان القرآن اپریل ۱۹۵۹ء میں شائع ہواتھا۔ اور اب وہ مقالہ تفہیمات حصہ سوم میں شائع کیاگیا ہے۔ معلوم نہیں وہ مقالہ آپ نے پڑھا ہے یا نہیں۔ اگر نہ پڑھا ہو تو اس کتاب میں ضرورپڑھیے۔ ممکن ہے تفہیمات حصہ سوم امریکہ ہی میں مل جائے۔ اوراگر نہ ملے تو پاکستان سے منگوالیجیے۔
مولانا کے مقالے کی تقریب یہ ہوئی تھی کہ ایک پاکستانی طالب علم نے لندن سے ان کو خط لکھاتھا اور علمائے عراق کے دوفتوے بھی ان کو بھیجے تھے جن میں اہل کتاب کے ذبیحے کو ہرحال میں جائز ثابت کیاگیا ہے۔ خواہ اس پر اللہ کا نام لیاجائے یا نہ لیا جائے۔ مولانا نے ان کے دلائل کا تشفی بخش جواب دیا ہے اور اس سلسلے کی آیات واحادیث کو جمع کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شافعی علما کا فتویٰ اوران کی رائے اس مسئلہ میں صحیح نہیں ہے۔
اسی مسئلے پر مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی ایک مقالہ لکھا تھا جو ’بینات‘ کراچی میں شائع ہواتھا۔ یہاں دیوبند کے دوسرے علمانے بھی اس مسئلہ پر لکھا ہےاور سب کا حاصل یہ ہے کہ تسمیہ کےبغیر جو جانور مشینوں سے ہلاک کیے جاتے ہیں ان کا گوشت حرام ہے۔
یورپ اور امریکہ میں مشینوں سے جانوروں کو ذبح (قتل) کرنے کے بارے میں ان کا خیال اور روش یہ معلوم ہوتی ہے کہ جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گویا اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا ایک فضول اور بے کار کام ہے ورنہ وہ آسانی کے ساتھ ایسا انتظام کرسکتے تھے کہ مشینوں سے جانورذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے لیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ اس تخیل کے ساتھ جو جانور مشینوں سےقتل کیے جاتے ہیں ان کے جائز اور حلال ہونے کا سوال ہی کیسے پیدا ہوتا ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لینا ایک بات ہے اور اللہ کا نام لینے کو بے کاروفضول سمجھنا بالکل دوسری بات ہے۔ اسی طرح جانور ذبح کرتے وقت کبھی کبھی اللہ کا نام نہ لینا ایک بات ہے اور اسی کو مستقل عادت اور روش بنالینا بالکل دوسری بات ہے۔ امام شافعیؒ کی یہ رائے کہ اگر کوئی مسلمان جانور ذبح کرتے وقت بالقصد بھی اللہ کا نام نہ لے تو ذبیحہ حلال ہوگا، میرے نزدیک صحیح نہیں ہے لیکن میراخیال ہے کہ انھوں نے جورائے دی ہے وہ پہلی دوصورتوں کے پیش نظر دی ہے، اللہ کا نام لینے کو کارِفضول سمجھنے اور اس کو مستقل عادت بنالینے کی صورتوں کو سامنے رکھ کر نہیں دی ہے۔اگر وہ موجودہ زمانے میں ہوتے تو اللہ کا نام لیے بغیر مشینوں سے ہلاک کیے جانے والے جانوروں کو حلال نہ قرار دیتے۔ جو لوگ ان کی رائے سے استدلال کرکے ان جانوروں کے ذبیحے کو حلال کہتے ہیں ان کا یہ استدلال بھی محل نظر ہے۔ آپ اس مسئلہ کی تحقیق کے وقت امام شافعیؒ کی رائے کے بارے میں میرے اس خیال کو بھی سامنے رکھیں۔ (نومبر ۱۹۷۳ء،ج۵۱،ش۵)