اگر کاروبارکے مجموعی سرماے سے یک جا زکاۃ نکالی جائے تو شریک ثانی کو یہ اعتراض ہے کہ کاروبار کا سرمایہ صرف صاحب سرمایہ کی ملکیت ہے اور اس پر اُسے علیحدہ منافع بھی ملتا ہے، لہٰذا سرماے پر زکاۃ سرمایہ دار کو ہی دینی چاہیے۔کیا شریک ثانی کایہ اعتراض درست ہے؟
جواب
شریک ثانی کا اعتراض درست نہیں ہے۔زکاۃ صرف اُ س سرماے پر نہیں لگتی ہے جس سے کاروبار شروع کیا گیا ہو، بلکہ کل کاروبار کی مالیت پر لگتی ہے۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ پورے کاروبار سے پہلے زکاۃ نکال لی جائے،پھر منافع اسی نسبت سے فریقین کے درمیان تقسیم ہوجو ان کے درمیان طے ہو چکی ہو۔ (ترجمان القرآن، جنوری۱۹۵۳ء)