جواب
یہ تجویز شریعت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ شریعت نے طلاق کے بعد صرف عدت تک کا نفقہ لازم کیا ہے۔ شریعت نے جو چیز لازم نہیں کی ہے اسے ہم شریعت کے نام پر کس طرح لازم کرسکتے ہیں ؟ دوسری بات یہ کہ یہ تجویز بہ ظاہر عورت کے حق میں ہے اور اس کے لیے مفید معلوم ہوتی ہے، لیکن در حقیقت یہ اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایک شخص اپنی حماقت یا بیوی کی کسی کم زوری کی وجہ سے اس سے علاحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اگر آپ اس سے کہیں کہ طلاق دوگے تو یاد رکھو مطلقہ کو تاحیات نفقہ دینا ہوگا، سوچیے پھر وہ طلاق کیوں دے گا؟ وہ نہ تو بیوی کو بیوی کی طرح رکھے گا اور نہ اسے طلاق دے گا کہ وہ آزادی سے اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکے۔ اسے لٹکائے رکھنے ہی میں اپنا فائدہ سمجھے گا۔ بعض اوقات عورت خود ہی اپنے غلط رو شوہر سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس صورت میں طلاق سے اس کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اس پہلو سے طلاق کی راہ میں دشواریاں پیدا کرنا عورت کے لیے نقصان دہ ہے۔ وہ مجبوراً عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی اور عدالت کی طویل کارروائی کے بعد اپنے شوہر سے نجات حاصل کرسکے گی۔