معاشی وجوہ سے منع حمل

میں اپنے ایک عزیز کے اس اعتراض کا جواب تسلی بخش طور پر نہ دے سکا۔ ازراہِ کرم راہ نمائی فرمائیں ۔ اعتراض یہ ہے: مولانا نے قرآن مجید کی آیت وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاٖکُمْ إنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا({ FR 2194 }) (بنی اسرائیل:۳۱) کی تفسیر میں انصاف سے کام نہیں لیا اور اس آیت کی تفسیر میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لحاظ سے مفہوم نکالا ہے۔ کیونکہ آیت میں قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور قتل اسی کو کیا جا سکتا ہے جس میں جان ہو، جب کہ جان اس جرثومے میں اسی وقت پڑتی ہے جب رحم مادر میں دو مخالف جرثوموں کا ملاپ واقع ہوتا ہے اور ایک جان دار شے وجود میں آتی ہے۔ چونکہ افزائش نسل کو روکنے کے طریقے عام طور پر مذکورہ ملاپ سے پہلے ہی عمل میں آ جاتے ہیں لہٰذا اس چیز کا قتل کیا معنی جس کا وجود یا جان ہی نہ ہو۔‘‘
جواب

آپ کے عزیز نے سورئہ بنی اسرائیل کی آیت ۳۱ کو بغور نہیں پڑھا بلکہ جو خیالات ان کے ذہن میں پہلے جمے ہوئے تھے انھی کی بنیاد پر آیت سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ اس میں صرف قتل اولاد سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس آیت میں قتل اولاد کو بڑی خطا قرار دینے کے ساتھ اس کے محرک، یعنی خوفِ افلاس، کو بھی غلط قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہہ کر کہ ’’ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی‘‘، اس امر کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ خوفِ افلاس، جو قتل اولاد کا محرک بنتا ہے، دراصل خدا کی رزَّاقی پر عدم اعتماد ہے، ورنہ یہ اعتماد موجود ہو تو نہ افلاس کا خوف تمھیں لاحق ہوگا اور نہ تم اولاد کو قتل کرو گے۔ اسی بات کی تشریح میں نے اپنے حاشیے میں کی ہے جس پر غور کرنے کی زحمت آپ کے ان عزیز نے نہیں اٹھائی۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ حمل کو روکنا قتل اولاد ہے، بلکہ کہا یہ گیا ہے کہ جو خوفِ افلاس پہلے قتل اولاد اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوتا تھا وہی اب ضبط ولادت کی تحریک کا محرک بنا ہوا ہے، اس لیے معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینا بھی اس آیت کی رو سے غلط ہے۔ ( ترجمان القرآن، جنوری۱۹۷۷ء)