معجزہ بطور دلیلِ نبوت

سورۂ العنکبوت میں آیت ۵۰ کے معنی میری سمجھ میں نہیں آئے۔میرے پاس جو قرآن پاک کی تفسیر ہے ،اس میں بھی ان کی وضاحت نہیں ملی۔لہٰذا آپ کی دینی بصیرت سے اُمید قوی ہے کہ آپ ان کی تفصیل سے آگاہ فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے۔ سورۂ العنکبوت آیت ۵۰ میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے: وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ’’اور کہتے ہیں ( منکر) کہ کیوں نہ اتریں اس پر کوئی نشانیاں اس کے ربّ سے۔ (آپ) کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو ہیں اختیارمیں اﷲ کے اور میں تو یہی سنا دینے والا ہوں کھول کر۔‘‘ مندرجہ بالا آیت قرآنی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کو معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائے۔ معجزات حضورﷺ کو عطا نہ کرنے کی جو وجوہات قرآن پاک میں درج ہیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں ۔مگر کیا اس سے حضور رسالت مآبؐ کی شانِ مبارک میں فرق نہیں آتا کہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو نشانیاں اور معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطافرمائے کہ جن کی شہادت قرآن پاک خود دے رہا ہے اور حضورﷺ کو اس سے بالکل جواب دے دیا؟ سیرت نبوی میں حضور ﷺ کے بہت سے معجزات درج ہیں ۔مثلاًمعجزۂ شق القمر، تھوڑے سے تھوڑے کھانے سے جماعت کثیر کا سیر ہو جانا، کنکریوں کا کلمۂ شہادت پڑھنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بظاہر قرآنی شہادت کی بِنا پر غلط معلوم ہورہے ہیں ۔
جواب

قرآن مجید میں یہ بات متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے کہ کفار نبی ﷺ سے معجزے کا مطالبہ کرتے تھے اوراس مطالبے کاجواب بھی قرآن میں کئی جگہ دیا گیا ہے۔ان سب مقامات پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ دلیل نبوت کے طور پر نہیں دیا گیا۔ یہ مطلق معجزے کی نفی نہیں ہے بلکہ ایسے معجزے کی نفی ہے جس کو اﷲ اور اس کے رسولؐنے نبوت کی علامت اور حیثیت سے پیش کیا ہو، اور جسے دیکھ لینے کے بعد انکار کرنے سے عذاب لازم آتا ہو۔ (ترجمان القرآن، مارچ۱۹۵۶ء)