جواب
حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے صاحب زادے حضرت یزید کی ولادت باختلاف ِ روایات ۲۵ھ یا ۲۶ھ یا ۲۷ھ میں ہوئی ( ابن ِ کثیر، البدایۃ والنہایۃ، دارا لریان للتراث، قاہرہ، ۱۹۸۸ء، ۸/ ۲۲۹) اس سے معلوم ہوا کہ وہ صحابی نہیں ، بل کہ تابعی ہیں ۔ تاریخ ِ اسلام میں ان کی شہرت اس اعتبار سے ہے کہ حضرت معاویہؓ نے اپنی زندگی ہی میں انھیں اپنے بعد خلیفہ بنائے جانے کے لیے نام زد کردیا تھا۔ چناں چہ حضرت معاویہؓ کی وفات (۶۰ھ) کے بعد انھوں نے تقریباً چار سال حکم رانی کرکے ۶۴ھ میں وفات پائی۔ انھی کے عہد ِ خلافت میں ۶۱ھ میں رسول اللہ ﷺ کے نواسے حضرت حسین بن علیؓ کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا اور ۶۳ھ میں واقعۂ حرہ پیش آیا، جس میں اہل ِ مدینہ کی بڑی تعداد، جس میں بہت سے جلیل القدر صحابہ اور تابعین بھی تھے، مقتول ہوئی۔ ان الم ناک واقعات نے حضرت یزید کی شخصیت پر بدنامی کا داغ لگا دیا۔
سیاسی اسباب سے حضرت یزید کی شخصیت متنازعہ رہی ہے۔ کتب تاریخ میں ان پر بہت سے الزامات لگائے گئے ہیں ، جن میں سے بیش تر تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے۔ یہ موقع ان کے محاکمے کا نہیں ہے۔ بہ ہرحال بعض صحیح احادیث سے حضرت معاویہؓ اور ان کے صاحب زادے حضرت یزید کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک درج ذیل حدیث ہے:
حضرت ام حرامؓ (جو حضرت عبادہ بن صامتؓ کی بیوی ہیں ) فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَوَّلُ جَیْشٍ مِّنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ اَوْجَبُوْا (میری امت کا پہلا لشکر جو بحری جنگ میں حصہ لے گا اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ فرمایا: ہاں ، تم بھی ان میں سے ہو۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: اَوَّلُ جَیْشٍ مِّنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّھُمْ (میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (یعنی روم) پر حملہ آور ہوگا اس کی بخشش کردی گئی) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر ، باب ما قیل فی قتال الروم، حدیث نمبر: ۲۹۲۴)
بعض دیگر روایات میں اس حدیث کا پس منظر تفصیل سے مذکور ہے۔ ان میں بیان کیا گیا ہے کہ آں حضرت ﷺ حضرت ام حرامؓ کے گھر وقتاً فوقتاً جایا کرتے تھے۔ ان کے یہاں کھانا تناول فرماتے اور کچھ دیر آرام کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر ان کے یہاں استراحت کے دوران آپ کی آنکھ لگ گئی۔ آپ نے ایک خواب دیکھا۔ آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے اور وہ بشارت سنائی جو پہلے مذکور ہے۔ پھر دوبارہ سوگئے۔ کچھ دیر کے بعد ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو دوسری بشارت سنائی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام حرامؓ کے دوبارہ سوال کرنے پر آپؐ نے فرمایا: ’’اَنْتَ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ‘‘ (تم پہلے لشکر کے ساتھ ہوگی)۔
(صحیح البخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب الدعاء بالجھاد والشھادۃ للرجال والنساء، حدیث نمبر: ۲۷۸۸، و دیگر مقامات، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر، حدیث نمبر: ۱۹۱۲)
اس حدیث میں جن دو جنگوں کا تذکرہ ہے، تاریخ سے ثابت ہے کہ ان میں سے ایک حضرت معاویہؓ کی سربراہی میں لڑی گئی تھی اور دوسری ان کے صاحب زادے حضرت یزید کی سربراہی میں ۔ پہلی جنگ ۲۷ھ یا ۲۸ھ میں ہوئی تھی، جب حضرت معاویہؓ خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہد ِ خلافت میں شام کے گورنر تھے۔ انھوں نے حضرت عثمان کی اجازت سے بحری بیڑہ تیار کرکے رومیوں سے جنگ کی اور جزیرۂ قبرص پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ میں حضرت ام حرامؓ بھی اپنے شوہر حضرت عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ شریک تھیں ۔ دوران ِ معرکہ ایک موقع پر وہ اپنی سواری سے گرگئیں جس سے ان کی وفات ہوگئی۔ دوسری بحری جنگ حضرت معاویہؓ کے عہد ِ خلافت میں ۴۹ھ یا ۵۰ ھ میں رومیوں سے ہوئی۔ اس میں اسلامی لشکر کی سربراہی حضرت یزید کر رہے تھے۔ اس جنگ میں حضرات صحابہ میں ابن ِ عمر، ابن ِ عباس، ابن ِ زبیر اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم بھی شریک تھے۔ اسی جنگ کے دوران حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وفات ہوگئی تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ، حوالہ سابق، ۸/۳۴، ۲۳۲)
اسی وجہ سے مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے مہلبؒ کے واسطے سے لکھا ہے: ’’اس حدیث میں منقبت ہے حضرت معاویہؓ کے لیے، کیوں کہ انھوں نے ہی سب سے پہلے بحری جنگ کی تھی، اور ان کے بیٹے یزید کے لیے بھی منقبت ہے، کیوں کہ اسی نے سب سے پہلے قیصر روم کے شہر پر حملہ کیا تھا۔‘‘ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، دار المعرفۃ، بیروت، ۶/۱۰۲)
حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہد ِ خلافت تک امت ِ مسلمہ متحد تھی۔ ان کے آخری زمانے میں فتنے ابھرے اور امت اختلاف و انتشار کا شکار ہوگئی۔ ان کی شہادت (۳۵ھ) کے بعد حضرت علی بن ابی طالبؓ خلیفہ بنائے گئے۔ لیکن ان کی خلافت پر تمام لوگوں کو اتفاق نہ تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے قاتلین ِ عثمانؓ سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں ان کے حامیوں اور حضرت علیؓ کی فوج کے درمیان بصرہ کے قریب جمادی الآخری ۳۶ھ میں جنگ ہوئی۔ اسے جنگ ِ جمل کہتے ہیں ۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد صفِّین کے مقام پر صفر ۳۷ھ میں حضرت معاویہؓ اور حضرت علیؓ کی فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ ان دونوں جنگوں میں دونوں طرف مسلمان تھے۔ بعد میں حضرت علیؓ کی خوارج سے بھی، جو بہکے ہوئے مسلمان تھے، متعدد جنگیں ہوئیں ۔ ۴۰ ھ میں ان کی شہادت کے بعد حضرت حسن بن علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔ مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھوں نے حضرت معاویہؓ سے صلح کرلی اور خلافت سے دست بردار ہوگئے۔ اس طرح پوری مملکت ِ اسلامیہ ایک خلیفہ کے ماتحت آگئی۔ مذکورہ جنگوں میں چوں کہ دونوں طرف مسلمان تھے، اس لیے بہت سے صحابہ و تابعین نے کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا اور ان جنگوں سے کنارہ کش رہے۔ ان میں سے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی تھے۔ مضمون میں یہ بحث نہیں کی گئی ہے کہ اسلامی تاریخ کے کن کن ادوار کو زمانۂ فتنہ کہا جاسکتا ہے؟ بل کہ صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ان جنگوں میں ، جن میں دونوں طرف مسلمان تھے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے شرکت نہیں کی۔ بعد میں جب امت ایک خلیفہ پر متفق ہوگئی تو حضرت عبدا للہ بن عمرؓ پھر جہاد میں شریک ہونے لگے۔
مذکورہ بالا حدیث میں جن بشارتوں کا تذکرہ ہے ان کا مصداق حضرت معاویہؓ اور حضرت یزید کو قرار دینا قیاسی و استنباطی ہے۔ فاضل مراسلہ نگار یا دوسرے محققین ان کے علاوہ دوسری شخصیات کو ان کا مصداق سمجھتے ہوں تو انھیں اختیار ہے۔ حضرت معاویہؓ اور حضرت یزید اپنے اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ اللہ کے دربار میں پہنچ گئے۔ وہ جیسا چاہے گا ان کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ ہم اپنی پارسائی کے ہزار دعووں کے باوجود ان کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔
حضرت یزید تابعی ہیں ، ان کے نام پر رضی اللہ عنہ کا نشان غلط لگ گیا ہے۔ ویسے متقدمین ’رضی اللہ عنہ‘ کو حضرات ِ صحابہ کے لیے خاص نہیں کرتے تھے، بل کہ بعد کی شخصیات کے لیے بھی اس کا استعمال کرتے تھے۔ حضرت کعب احبار بھی تابعی ہیں ۔ عہد ِ نبویؐ میں موجود تھے، لیکن صحیح روایت کے مطابق قبول ِ اسلام کی سعادت حضرت عمر فاروقؓ کے عہد ِ خلافت میں حاصل ہوئی۔ اس سے قبل یہود کے جید علماء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کے واسطے سے بہت سی اسرائیلی روایات اسلامی لٹریچر میں داخل ہوگئیں ، جنھیں ائمہ حدیث ناقابل ِ اعتبار قرار دیتے ہیں ۔ ۳۲ھ میں حضرت عثمانؓ کے عہد ِ خلافت میں شام میں ان کی وفات ہوئی۔
(۲)
معرکۂ قسطنطنیہ کی سربراہی سے متعلق مراسلہ نگار کے شبہات پر راقم سطور نے جو وضاحت کی تھی، اس سلسلے میں موصوف نے مزید کچھ معروضات پیش کیے ہیں ۔ استنباط کا فرق اور نقطۂ نظر کا اختلاف عین ممکن ہے۔ لیکن چوں کہ موصوف کے یہ معروضات زیر ِ بحث حدیث کے سلسلے میں قارئین کو غلط فہمی میں مبتلا کرسکتے ہیں ، اس لیے مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
راقم نے یہ حدیث نقل کی تھی:
حضرت امِ حرامؓ (حضرت عبادہ بن صامتؓ کی بیوی) فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَوَّلُ جَیْشٍ مِّنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ اَوْجَبُوا (میری امت کا پہلا لشکر جو بحری جنگ میں حصہ لے گا اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔)، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ فرمایا: ہاں تم بھی ان میں سے ہو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اَوَّلُ جَیْشٍ مِّنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّھُمْ (میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (یعنی روم) پر حملہ آور ہوگا اس کی بخشش کردی گئی) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، حدیث: ۲۹۲۴)
اس حدیث کے سلسلے میں موصوف نے اپنے معروضات میں چند اشکالات پیش کیے ہیں ۔ ان کا پہلا اشکال یہ ہے کہ ’’نہ تو پہلی جنگ میں روم کا تذکرہ ہے اور نہ ہی دوسری جنگ کے تعلق سے روم کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ دوسری جنگ کے تعلق سے بحری جنگ ہونے کی بھی وضاحت نہیں ہے۔ پھر بھی جناب مضمون نگار اس دوسری جنگ کو بحری جنگ قرار دینے پر مصر ہیں ۔‘‘
موصوف کو یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی کہ ان کے پیش ِ نظر حدیث کا صرف یہی متن ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری (متعدد مقامات) کے علاوہ صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن نسائی، موطا امام مالک اور مسند احمد میں بھی مروی ہے۔ اگر وہ ان تمام مقامات کو ملاحظہ کرلیتے تو ان کی غلط فہمی دور ہوجاتی۔ ذیل میں مختلف مقامات کے الفاظ ِ حدیث نقل کیے جاتے ہیں :
(۱) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے پہلی اور دوسری، دونوں جنگوں کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے۔ نَاسٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عُرِضُوْا عَلَیَّ غُزَاۃً فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، یَرْکَبُوْنَ ثَبَجَ ھٰذَا الْبَحْرِ مُلُوْکًا عَلَی الْاَسِرَّۃِ۔ (کتاب الاستئذان، باب من زار قوماً فقال عندھم، ۶۲۸۲) ’’میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے سمندر پر اس طرح سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے ہیں ۔‘‘
(۲) دوسری متعدد احادیث میں پہلی جنگ کے لیے وہی الفاظ مذکور ہیں جو اوپر درج کیے گئے اور دوسری جنگ کے لیے مختصراً یہ الفاظ ہیں : نَاسٌ مِّنْ اُمَّتِی عُرِضُوْا عَلَیَّ غُزَاۃً فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ساتھ ہی ہر روایت میں راوی نے یہ بھی صراحت کی ہے: ’’کَمَا قَالَ فِی الْاُوْلٰی‘‘ یعنی رسول اللہ نے دوسری جنگ کے لیے وہی بات فرمائی تھی جو پہلی جنگ کے لیے فرمائی تھی۔‘‘ (بخاری: ۲۷۸۸، ۷۰۰۲، مسلم: ۱۹۱۲، ترمذی: ۱۶۴۵، نسائی: ۳۱۷۱، موطا: ۱۹۳۱)
(۳) متعدد روایات میں دوسری جنگ کے لیے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ صراحت سے مذکور نہیں ہیں ، بل کہ راوی نے یہ ذکر کیا ہے کہ آپؓ نے اس موقع پر بھی وہی بات دہرائی تھی جو پہلی مرتبہ فرمائی تھی: ثُمَّ نَامَ فَاسْتَیْقَظَ وَ ھُوَ یَضْحَکُ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ/ مِثْلَ مَقَالَتِۃٖ۔ (بخاری: ۲۷۹۹، ۲۸۷۷، ۲۸۹۴، مسلم: ۱۹۱۲، نسائی: ۳۱۷۲)
اس تفصیل سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں :
(الف) بخاری کی حدیث ۲۹۲۴ اور دیگر احادیث، جنھیں اوپر ذکر کیا گیا ہے، سب حضرت امِ حرامؓ سے مروی ہیں اور سب میں ایک ہی موقع کا بیان ہے، اگرچہ تعبیرات بدلی ہوئی ہیں ۔
(ب) رسول اللہ ﷺ کی دونوں پیشین گوئیاں بحری جنگوں سے متعلق ہیں ۔ اسی لیے محدثین کرام نے ترجمۃ الباب میں اس کی صراحت کی ہے۔ بخاری: باب رکوب البحر، مسلم: باب فضل الغزوۃ فی البحر، ترمذی: باب ماجاء فی غزوۃ البحر، نسائی: باب فضل الجھاد فی البحر۔
(ج) آں حضرت ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق حضرت امِ حرامؒ کو صرف پہلی بحری جنگ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، دوسری میں نہیں ۔ اور تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلی بحری جنگ، جس میں حضرت امِ حرامؓ شریک ہوئی تھیں ، وہ ہے جو ۲۷ھ یا ۲۸ھ میں حضرت معاویہؓ نے رومیوں سے کی تھی۔ (ابن ِ کثیر، البدایۃ والنہایۃ، طبع قاہرہ ۱۹۸۸ء، ۸/۳۴) یہی صراحت احادیث میں بھی ملتی ہے: فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِھَا عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِیًا اَوَّلَ مَا رَکِبَ الْمُسْلِمُوْنَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِیَۃَ۔ (بخاری: ۲۷۹۹)
دوسری بحری جنگ میں مسلم لشکر نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا۔ یہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کا پہلا حملہ تھا، جو ۴۹ ھ میں انجام دیا گیا تھا۔ اس سال کے اہم واقعات کے ضمن میں مورخ ابن ِ کثیرؒ نے لکھا ہے: فِیْھَا غَزَا یَزِیْدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ بِلاَدَ الرُّوْمِ حَتّٰی بَلَغَ قُسْطُنْطُنْیَۃَ… فَکَانَ ھٰذَا الْجَیْشُ اَوَّلُ مَنْ غَزَاھَا۔ البدایۃ والنھایۃ، ۸/۳۴ (اس سال یزید بن معاویہ نے بلاد ِ روم پر حملہ کیا، یہاں تک کہ قسطنطنیہ پہنچ گیا… یہ پہلا لشکر تھا جو قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا تھا)
موصوف کا دوسرا اشکال یہ ہے کہ ’’حدیث میں قیصر کے شہر یعنی روم پر حملے کی بات کہی گئی ہے تو اس سے مراد قسطنطنیہ کی جنگ کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے شہنشاہِ روم قیصر کے زیر اقتدار کوئی دوسرا شہر بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔‘‘ آگے فرماتے ہیں : ’’واضح رہے کہ کسی شہر قیصر پر پہلا حملہ کرنے والا پہلا اسلامی لشکر وہ تھا جس نے عہد ِ نبوی میں شام کے علاقے ’موتہ‘ میں لشکر ِ روم کے مقابلے میں داد ِ شجاعت پیش کی تھی۔ اور جنگ ِ قسطنطنیہ سے پہلے کئی بحری جنگیں ہوچکی تھیں ، مثلاً عہد نبوی میں فتح مکہ کے بعد جدہ کی بندرگاہ پر حملہ اور عہد ِ فاروقی میں ایران اور ہندوستان کے سواحلی علاقوں پر بحری حملے۔‘‘
یہ اشکال بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ:
(۱) اوپر یہ وضاحت گزرچکی ہے کہ حدیث کے مطابق دوسری جنگ بھی بحری جنگ ہے۔ اس لیے اس کا مصداق غزوۂ موتہ کو نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بحری جنگ نہ تھی۔
(۲) پہلی بحری جنگ، جس میں حضرت امِ حرامؓ کے شریک ہونے کی رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی کی تھی، ۲۷ھ یا ۲۸ھ میں ہوئی تھی۔ اس لیے ’دوسری بحری جنگ‘ کا مصداق ان معرکوں کو قرار دینا صحیح نہیں جو عہد ِ نبوی یا عہد ِ فاروقی میں پیش آئے تھے۔ بل کہ کسی ایسی جنگ پر ہی اس کا اطلاق مناسب معلوم ہوتا ہے، جو اس کے بعد ہوئی ہو۔
(۳) ’مدینۃ قیصر‘ سے شہنشاہِ روم قیصر کی حدود ِ مملکت کا کوئی بھی شہر مراد لینا صحیح نہیں ہے۔ طرز ِ تعبیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد کوئی مخصوص شہر ہے۔ چناں چہ محدثین نے اس سے رومی سلطنت کا دار الحکومت قسطنطنیہ مراد لیا ہے۔ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری بشرح صحیح البخاری، دار المعرفۃ بیروت، ۶/۱۰۲، بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، مکتبہ مصطفی البابی، مصر ۱۲/۱۰)
موصوف کا تیسرا اشکال یہ ہے کہ ’’اگر بالفرض مان لیا جائے کہ مذکورہ حدیث قسطنطنیہ ہی سے متعلق ہے تو یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ اس پر پہلا حملہ کرنے والا یزید ہے۔ اس لیے کہ یزید کا قسطنطنیہ پر حملہ ۴۹ھ- ۵۵ھ کے درمیانی عرصے میں ہوا تھا، جب کہ قسطنطنیہ پر اس سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن خالد بن الولید کی سپہ سالاری ہی میں حملہ ہوچکا تھا، جیسا کہ ابو داؤد کی ایک حدیث میں صراحت ہے اور حضرت عبد الرحمن کا انتقال ۴۶ھ/۴۷ھ میں ہوگیا تھا۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’ابو داؤد شریف صحاحِ ستہ میں سے ہے۔ عام تاریخ کی کتابوں کے مقابلے میں اس کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔‘‘
سنن ابی داؤد کی جس حدیث کی جانب موصوف نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے۔ حضرت اسلم ابو عمران فرماتے ہیں :
غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ نُرِیْدُ الْقُسْطُنْطُنْیَۃَ وَ عَلَی الْجَمَاعَۃِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ، وَالرُّوْمُ مُلْصِقُو ظُھُوْرِھِمْ بِحَائِطِ الْمَدِیْنَۃِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَی الْعَدُوِّ فَقَالَ النَّاسُ مَہْ مَہْ لَآ اِلٰـہَ اِلّاَ اللّٰہُ یُلْقِیْ بِیَدَیْہِ اِلَی التَّھْلُکَۃِ فَقَالَ اَبُوْ اَیُّوْبُ…
قَالَ اَبُو عِمْرَانَ فَلَمْ یَزَلْ اَبُوْ اَیُّوْبَ یُجَاھِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّٰی دُفِنَ بِالْقُسْطُنْطُنْیَۃِ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی قولہ تعالٰی ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ، حدیث: ۲۵۱۲)
’’قسطنطنیہ پر حملہ کے ارادے سے ہم مدینے سے نکلے۔ لشکر کے سپہ سالار عبد الرحمن بن خالد بن الولید تھے۔ رومی شہر قسطنطنیہ کی فصیل کی جانب اپنی پیٹھ کیے ہوئے تھے۔ ایک شخص نے دشمن پر زبردست حملہ کیا تو لوگ کہنے لگے: یہ کیا؟ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، یہ شخص خود کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ اس پر ابو ایوبؓ نے فرمایا…
ابو عمران کہتے ہیں : ابو ایوبؓ برابر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی اور قسطنطنیہ ہی میں ان کو دفن کردیا گیا۔‘‘
اس روایت میں حضرت ابو ایوبؓ کی وفات کا بھی ذکر ہے، جب کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کی وفات اس جنگ میں ہوئی تھی جس کے سپہ سالار حضرت یزید تھے۔ اس تعارض کو موصوف نے یوں دور کیا ہے: ’’رہی بات یہ کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا انتقال اس جنگ میں ہوا جس کا سپہ سالار یزید تھا تو اس میں بھی کوئی خلجان نہیں ۔ اس لیے کہ قسطنطنیہ کا پہلا حملہ حضرت عبد الرحمن بن خالد کی سرکردگی میں ہوا۔ آپ اس میں شریک رہے، پھر بعد میں اس لشکر میں شریک ہوئے جس کا سپہ سالار یزید تھا تو قسطنطنیہ میں آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘
موصوف کا یہ اشکال بھی متعدد غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
(۱) دراصل حضرت معاویہؓ کے عہد ِ حکومت میں رومی سلطنت پر حملہ کا آغاز ۴۴ھ سے کیا گیا تھا۔ اس موقع پر حضرت معاویہؓ کا ارادہ دار الحکومت قسطنطنیہ کو زیر کرنے کا تھا۔ بری فوج کی قیادت حضرت عبد الرحمن بن خالد کر رہے تھے۔ یہ حملہ ۴۶ھ تک جاری رہا۔ لیکن اس موقع پر مسلم افواج (بری اور بحری دونوں ) قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکیں اور اہل ِ روم کی مزاحمت سے راستے ہی سے واپس آگئیں ۔ حمص واپس آکر حضرت عبد الرحمن بن خالد کی وفات ہوگئی۔
(۲) ۴۹ ہجری میں دوبارہ حملہ کیا گیا۔ اس موقع پر بحری فوج کی قیادت طبری کے مطابق حضرت یزید بن معاویہ اور ابن اثیر کے مطابق حضرت سفیان بن عوف کر رہے تھے اور حضرت یزید اس فوج میں شامل تھے۔ اس موقع پر مسلم فوج قسطنطنیہ تک پہنچ گئی تھی اور اس نے طویل عرصے تک اس کا محاصرہ بھی کیے رکھا تھا، مگر اسے فتح نہیں کرسکی تھی۔
(۳) سنن ابی داؤد کی روایت میں راوی نے دو الگ الگ مواقع کے بیانات کو یکجا کردیا ہے اور ایسا احادیث میں بار بار ہوا ہے۔ ابتدائی حصے کا بیان ۴۴ ہجری کا ہے، جب فوج مدینے سے روانہ ہوئی تھی اور اس کی سپہ سالاری حضرت عبدا لرحمن بن خالد کر رہے تھے۔ بقیہ حصے کا بیان ۴۹ ھ کا ہے، جب مسلم فوج نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور اسی موقع پر حضرت ابو ایوبؓ کی وفات ہوئی تھی۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ قسطنطنیہ کا محاصرہ مسلم فوج نے ۴۹ھ میں کیا تھا، جب کہ حضرت عبد الرحمن بن خالد کی وفات ۴۶ھ میں ہوچکی تھی۔
(۴) ارشادات ِ رسول کی صحت کے معاملے میں یقینا کتب ِ حدیث کو تاریخ کی عام کتابوں کے مقابلے میں ترجیح دی جائے گی، لیکن تاریخی واقعات کے اثبات کے لیے ایسا ضروری نہیں ہے۔ بل کہ وہ چاہے کتب ِ احادیث میں ہوں یا کتب ِ تاریخ میں ، ان کی جانچ پرکھ کی جائے گی اور اس کے بعد ہی ان کی صحت یا عدمِ صحت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
(۵) سنن ابی داؤد کی روایت کی رو سے اگر مان بھی لیا جائے کہ حضرت عبد الرحمن بن خالد کی سپہ سالاری میں مسلم فوج قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوگئی تھی، تو یہ بھی ثابت ہے کہ وہ بری افواج کے سربراہ تھے، جو موسمِ سرما میں جنگی سرگرمیاں انجام دیتی تھیں ۔ (طبری، ابن ِ کثیر اور ابن ِ اثیر تینوں مورخین نے اس کی صراحت کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے طبری، تاریخ الرسل والملوک، المعروف بتاریخ الطبری، دار المعارف مصر: ۵/۲۱۲، ۲۲۶، ۲۲۷، ابن ِ کثیر، البدایۃ والنہایۃ،۸/۳۲، ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، دار الکتاب العربی، بیروت، ۱۹۸۶ء، ۳/۲۲۵، ۲۲۷- ۲۲۸) جب کہ حدیث میں مغفرت کی بشارت قسطنطنیہ پر حملہ آور بحری فوج کے لیے ہے۔
آخر میں محترم مراسلہ نگار سے گزارش ہے کہ محض شبہات اور اشکالات پیدا کرنے اور دلیل میں اخبارات (اردو ٹائمز اور ہفت روزہ نشیمن) کے حوالے پیش کرنے پر اکتفا نہ کریں ، بل کہ کتب ِ حدیث اور کتب ِ تاریخ سے بہ راہِ راست استفادہ کرکے صحیح نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔ واللّٰہ یھدی الی سواء السبیل۔