معمہ بازی کا کاروبار ناجائز ہے

,

مسلمانوں میں معمہ بازی،وباکی طرح پھیلتی جارہی ہے۔بہت سے رسائل واخبارات یہ کاروبارکررہے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد اس کو گیم آف اسکیل کہتے ہیں اور اس کے ناجائز ہونے میں شبہ ظاہر کرتے ہیں۔ آپ شرعی طورپر بتائیے کہ یہ کاروبارجائز ہے یا ناجائز ؟ اگر ناجائز ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب

حصول مال کی خواہش، انسان کی طبیعت میں داخل ہے اور وہ طبعی طورپر مال سے محبت کرتاہے۔یہ محبت جب پر اپنی حدتک قائم رہتی ہے، ہر شخص کی اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہوتی ہے اور معاشرے کے لیے بھی لیکن جب یہ اپنی حد سے آگے بڑھتی ہے تو فساد شروع ہوجاتاہے۔
معاشی طورپر معاشرے میں بگاڑپیدا کرنے کے لیے شیطان نے انسان کو بہت سی تدبیریں سکھائی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تدبیرجواہے۔ جوے کی اصل یہ ہے کہ انسان محض قلیل رقم صرف کرکے کثیر رقم پرہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔ اس میں نفع ونقصان کا دارومدار محض بخت واتفاق پرہوتا ہے۔ قسمت سے لوگ جیت جاتے ہیں اور قسمت ہی سے ہارجاتے ہیں۔ اسلام سے پہلے عرب میں لوگ پانسوں اورتیروں سے جواکھیلتے تھے اور اب اس کے سیکڑوں طریقے ایجاد کرلیے گئے ہیں۔ انھیں طریقوں میں سے ایک طریقہ ’معمہ بازی‘ بھی ہے۔ جوے سے چوں کہ معاشرے میں بڑی خرابیاں واقع ہوتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑی تاکید کے ساتھ حرام قراردیاہے۔شراب،جوا،بتوں کے تھان اورپانسوں کو ایک ہی آیت میں حرام کیاگیا ہے اور ان سب کو ’گندگی اور شیطانی کام ‘ کہا گیا ہے اور مسلمانوں کو پوری تاکید کے ساتھ ان سے پرہیز کاحکم دیاگیاہے۔
جولوگ معمہ بازی کو گیم آف اسکیل سمجھتے ہیں ان کو انصاف کے ساتھ اس بات پر غورکرنا چاہیےکہ پانسوں کے ساتھ جواکھیلنے میں اور معمہ بازی میں کوئی بنیادی فرق موجود نہیں ہے۔پانسوں میں بھی اصل مدارقسمت او ر اتفاق پرہوتا ہے۔ اور معموں میں بھی جیتنے کا دارومدارمحض قسمت اور اتفاق پرہوتاہے۔ تعجب ہےکہ لاٹری کو تولوگ جواسمجھتے ہیں اور معمہ بازی کے جواہونے میں شبہ کرتے ہیں حالاں کہ معمہ بازی لاٹری سے بدترقسم کا جواہے۔ لاٹری میں تو صرف روپیہ برباد ہوتاہے اور معمہ میں روپےاوروقت دونوں غارت ہوتے ہیں۔ آخرکون شخص اس کو انصاف قرار دے سکتا ہے کہ ہزاروں افراد کو برباد کرکے دس بیس افراد اپنی جھولیاں بھرلیں۔ بڑے بڑے معمہ باز فیس کے نام سے لاکھوں روپیہ جمع کرتے ہیں۔ معمے حل کرنے والوں میں دوچار کودس بیس ہزار دے دیتے ہیں اور باقی رقم ان کی موٹی توند میں پہنچ جاتی ہے۔یہ ایک ظلم ہے۔ صریح ظلم ہے۔اس سے ہر اس شخص کو بچنا چاہیے جو آخرت کے عذاب وثواب پرایمان رکھتا ہے۔ اسلامی شریعت نے ہر ایسے معاملے کو ناجائز قراردیاہے جس میں نفع اورنقصان کی بنیاد محض قسمت اوراتفاق پرہو اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معموں میں نفع اورنقصان قسمت اور اتفاق ہی پر موقوف ہوتاہے۔
روپے اور وقت کی بربادی کے علاوہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی پہنچتا ہے کہ معاشرے کے ہزاروں افراد ذہنی اورعملی طورپرسست،کاہل، محنت سے جی چرانے والے اور مفلوج بن کر رہ جاتے ہیں۔ اور اب تو معلوم ہوا ہے کہ بے حیائی کو پسند کرنے والے لوگ اس کو بے حیائی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کررہے ہیں۔ بہت سے حروف اس طرح مرتب کیے جاتے ہیں کہ ان کا حل کوئی فحش لفظ بنتاہے۔ (نومبر ۱۹۶۳ء،ج۳۱،ش۵)