جواب
جن مولوی صاحب نے آپ سے یہ کہا کہ مولانا مفتی محمد یوسف صاحب نے اپنی کتاب میں میری عبارتوں کی جو توجیہات کی ہیں ’’ان کا خود میں نے انکار کیا ہے اور اسی بنا پر میں نے اس کتاب کی تقریظ و تصدیق نہیں کی‘‘ اور یہ کہ ’’اس کتاب کی اشاعت میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے‘‘، انھوں نے بالکل جھوٹی بات آپ سے کہی۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے صریح اور سفید جھوٹ بولنے والے لوگ بھی مدارسِ عربیہ میں موجود ہیں اور گروہ علما میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان سے دریافت کیجیے کہ یہ باتیں ان کو آخر کس ذریعۂ علم سے معلوم ہوئی ہیں ۔
آپ نے اگر مفتی صاحب کی کتاب کو بغور پڑھا ہوتا تو آپ کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی بلکہ آپ خود ہی سمجھ لیتے کہ یہ بالکل ایک من گھڑت بات ہے جو ان مولوی صاحب نے آپ سے کہی ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ اس کتاب پر میری تصدیق کی سرے سے کوئی حاجت ہی نہ تھی۔ مفتی صاحب نے میری کسی عبارت کی توجیہ بھی بطورِ خود نہیں کر دی ہے۔ ہر توجیہ کے ثبوت میں انھوں نے خود میری ہی عبارتوں اور ان کے سیاق و سباق سے استدلال کیا ہے اور وہ عبارتیں پوری پوری نقل کر دی ہیں جن سے میرا اصل مدعا خود ہی آئینے کی طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اس ثبوت اور دلائل کے بعد میری تصدیق کی ضرورت صرف دو ہی قسم کے آدمی محسوس کرسکتے ہیں یا تو وہ جو کسی علمی بحث کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا پھر وہ جو صریح دلیل و ثبوت سامنے آ جانے کے بعد بھی حق بات کو نہیں ماننا چاہتے اور فتنہ پردازی کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔
ان مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ اگر میرے نزدیک یہ کتاب درست تھی تو میں نے اس پر تقریظ کیوں نہیں لکھی، ان کے ذہن کی پستی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان سے کہہ دیجیے کہ اپنی حمایت اور منقبت میں کتابیں لکھوانا اور خود ان پر تقریظیں لکھنا چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ میں نے مفتی صاحب سے یا کسی دوسرے صاحب سے کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ میری حمایت میں کوئی کتاب لکھیں ۔ مفتی صاحب نے خود ہی اپنی دیانت اور حق پسندی کے اقتضا سے یہ کتاب لکھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بات اگر دلیل کے اعتبار سے وزنی ہے تو وہ خود اہل علم کے حلقوں میں اپنا اثر پیدا کرلے گی۔ میری کسی تقریظ کی وہ محتاج نہیں ہے۔
اصل صورتِ معاملہ یہ ہے کہ مفتی صاحب کی اس کتاب سے ان بہت سے حضرات کی دیانت مشتبہ ہوگئی ہے جو جان بوجھ کر میری عبارتوں کو توڑنے مروڑنے اور زبردستی ان کے اندر کفر و الحاد اور ضلالت کے معنی بھرنے میں مشغول رہے ہیں ۔ میں نے کبھی ان کی ان زیادتیوں کی پروا نہیں کی، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جھوٹ کی نائو زیادہ دیر تک چل نہیں سکتی اور اللّٰہ تعالیٰ ایک روز ان کی پردہ دری کرکے رہے گا۔ اب جب انھی کے حلقے کے ایک انصاف پسند آدمی کے ہاتھوں اللّٰہ نے یہ پردہ دری کرا دی ہے تو وہ اس پر چراغ پا ہو رہے ہیں ، حالانکہ یہ حرکاتِ مذبوحی ان کو اور زیادہ رسوا کر دیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض میری طرف سے مفتی صاحب کی توجیہات کی کوئی تصدیق یا تردید نہ ہو اور مفتی صاحب نے بھی میری عبارتوں سے میرا مدعا واضح کرنے کے بجاے خود اپنی طرف سے ہی میرے اقوال کی ایسی توجیہ کر دی ہو جس سے وہ اعتراضات رفع ہو جاتے ہیں جو مخالفین کی طرف سے مجھ پر وارد کیے جاتے ہیں ، تو آخر شریعت کے کس قاعدے کی رو سے ایک دیانت دار انسان یہ رویہ اختیار کرسکتا ہے کہ ایک مسلمان کے قول کی جہاں دو توجیہیں ممکن ہوں ، جن میں سے ایک کی بنا پر اسے مطعون نہ کیا جا سکتا ہو اور دوسری کی بنا پر وہ ملزم قرار پاتا ہو، تو وہ پہلی توجیہ کو قبول کرنے سے انکار کر دے اور دوسری توجیہ ہی پر اصرار کرتارہے؟ اس کا یہ اصرار تو خود اس بات کی علامت ہوگا کہ وہ للہ فی اللّٰہ اس مسلمان سے اختلاف نہیں رکھتا بلکہ عناد اور کینے کی بنا پر مخالفت کر رہا ہے جس کے متعلق حدیث میں خبر دی گئی ہے کہ ھِیَ الْحَالِقَۃُ ۔({ FR 1045 })
(ترجمان القرآن، جنوری۱۹۶۸ء)