مقام تنعیم سے عمرہ کاحکم

بعض اہل علم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فی زمانہ عوام الناس بکثرت ایسا کرتے ہیں کہ مکہ معظمہ سے باہر حل یعنی مقام تنعیم وغیرہ باربار جاتے اوروہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں اور اس کو عمرہ لانا کہتے ہیں۔ ایسا کرنا جائز تو ہے لیکن فی الواقع غیرمسنون اورغیرمشروع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں کیا ہے۔

دریافت طلب امریہ ہے کہ جب یہ فعل غیرمسنون اورغیرمشروع ہے۔ تو عوام الناس محض ایک جائز کام کے لیے زحمت کیوں برداشت کرتے ہیں ؟ غیرمسنون وغیرمشروع ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور فضیلت ختم ہوجاتی ہے۔ عوام الناس کی واقفیت کے لیے اس مسئلے پر اظہارِ خیال کرنا چاہیے۔

جواب

اوپر جن صاحب علم کا خیال نقل کیاگیا ہے۔ انھوں نے اس فعل کو مطلقاً بغیر کسی قید ووضاحت کے ’غیر مسنون‘ اور ’غیرمشروع‘ کہنے میں احتیاط نہیں برتی ہے۔ ’مشروع‘کا لفظ اصطلاحی طور پر دوجگہ استعمال کیا جاتا ہے ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کے بارے میں کوئی حکم دیا ہو اور کوئی قانون نافذ فرمایا ہو۔مثلاً شریعت اسلامیہ کا قانون ہے کہ کوئی آفاقی (کسی میقات حج سے باہر رہنے والا) جب موسم حج کے علاوہ کسی مہینے میں مکہ میں داخل ہونا چاہے۔تواحرام باندھ کر داخل ہواور عمرہ ادا کرے۔اس عمرے کو ’مشروع‘ عمر ہ کہا جاتا ہے۔ اور اس کی خلاف ورزی جرم ہے۔اس لفظ کا دوسرا موقع استعمال پہلے موقع سے بہت عام ہے۔ ہر ایسی چیز کو جس کے لیے شریعت میں اذن موجود ہے مشروع کہا جائے گا۔یہاں تک کہ مباح اشیا بھی اس میں داخل ہیں۔ کیوں کہ ’مباح‘ احکام شرع کی مستقل ایک قسم ہے اور جہاں تک نفل عبادتوں کا تعلق ہے جن کی ترغیب شریعت میں موجود ہے تو ان کے مشروع ہونے میں کوئی شبہ بھی نہیں ہے۔ اس طرح تمام مندوبات ومستحبات اورنفل عبادتیں مشروع ہیں۔  کسی نفل عبادت کو مطلقاً غیر مشروع کہنا صحیح نہیں ہے۔اسی طرح جہاں تک راقم الحروف کو علم ہے ’غیرمسنون‘ کا لفظ اصل میں کسی خلاف سنت شے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھاتاہے تو اس کے اس فعل کو غیرمسنون کہاجائے گا۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ کسی ایسی چیز کو بھی علماوفقہا نے’غیرمسنون‘ کہاہو جو شرعاً مباح ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ پلائو کھانا غیر مسنون ہے تو وہ اس لفظ کا صحیح محل پراستعمال نہیں کرے گا۔ اس بات میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ کام نہیں کیا اور اس بات میں کہ یہ کام ’’غیرمسنون‘‘ ہے۔فرق کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی شخص ایسی عبادت کو جس کی فضیلت بیان کی گئی ہو غیر مسنون کہتا ہے تو اس کا یہ قول غلط ہے۔ میں اس کو ایک مثال سے واضح کرتاہوں۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے عمرے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے لیکن خود کبھی رمضان میں عمرہ ادا نہیں فرمایا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ ’’رمضان میں عمرہ ادا کرنا جائز تو ہے لیکن فی الواقع غیرمسنون وغیرمشروع ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں کبھی عمرہ ادا نہیں کیا ہے۔‘‘ توایسے شخص کے بارے میں یہی فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ شرعی اصطلاحات سے ناواقف ہے۔ اس ضروری توضیح کے بعد اب اصل مسئلے کو لیجیے۔

۱-عمرے کی اہمیت وفضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے یہاں تک کہ احادیث میں اس کے لیے’حج اصغر ‘ کا لفظ بھی استعمال کیاگیا ہے۔

۲-تمام عمر میں ایک بارعمرہ ادا کرنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے اورامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنت ہے۔

۳- عمرے کی فضیلت میں جو احادیث آئی ہیں وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے عام ہیں۔  اس کے مخاطب اہل مکہ بھی اسی طرح ہیں جس طرح دوسرے مقامات کے باشندے۔

۴- یہ بات بھی بلااختلاف ثابت ہے کہ عمرہ سال کے تمام ایام میں کیا جاتاہے۔ (صرف یوم عرفہ  یوم النحراور ایام تشریق میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ ہے۔)

ان مسلمات سے ہی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی شخص یا گروہ’حج اصغر‘ کی فضیلت واجر حاصل کرنے کےلیے باربار عمرہ کرے تو اس کے لیے یہ فعل مستحب اور باعث تکثیر اجر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور ائمہ مذاہب اورفقہائے امت اکثار اعتمار (بکثرت عمرہ کرنا)کو مستحب کہتے ہیں۔  اس مسئلے میں ائمہ اربعہ میں صرف امام مالکؒ کا اختلاف منقول ہے۔ وہ سال میں ایک سے زیادہ عمرے کو مکروہ کہتے ہیں اور ان کی طرف سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سال میں ایک سے زیادہ عمرہ کبھی نہیں کیا ہے۔ اہل مکہ تو الگ رہے ان کے نزدیک تو مثال کے طورپر اگر ایسا ہوکہ ہندوستان کا کوئی شخص عمرہ ادا کرکے اپنے گھر واپس آئے اور پھر اسی سال جاکر دوبارہ عمرہ کرے تو اس کا یہ فعل مکروہ ہوگا۔ ان کی طرف سے دی ہوئی دلیل کا جواب جمہورکی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ حضورؐ کے عدم فعل کو کراہت کی دلیل بنانا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ حضورؐ کبھی کسی فعل کو مستحب سمجھنے کے باوجود اس کو صرف اس لیے ترک فرمادیتےتھے کہ کہیں امت مشقت میں نہ پڑجائے۔ ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہاء کے علاوہ خود مسلک مالکی کے متعدد ائمہ نے اس مسئلے میں امام مالکؒ سے اختلاف کیا ہے۔یہ تو نہیں معلوم کہ امام مالکؒ نے کس پس منظر میں یہ بات فرمائی تھی کہ سال میں ایک سے زیادہ عمرہ کرنا مکروہ ہے لیکن ان کی طرف سے جو دلیل دی گئی ہے وہ انتہائی کم زور ہے۔ یہ دلیل ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وقت میں کبھی ایک اسبوع (کعبے کے گردسات چکر لگانا) سے زیادہ طواف نہیں کیا اس لیےایک وقت میں ایک سے زیادہ اسبوع مکروہ ہے اور اسی طرح اس کو پھیلاتے چلے جائیےتو بے شمارنفلی عبادات کی تکثیر مکروہ بن کر رہ جائے گی۔جب تک خود امام مالکؒ کی صراحت نہ مل جائے کہ انھوں نے ایک سے زیادہ عمرے کو کیوں مکروہ کہاتھا اس وقت تک ان کی طرف اس قول کے انتساب میں بھی تامل ہوتاہے۔

اب تک جو کچھ لکھا گیا اس سے اصولی طورپر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بکثرت عمرے کرنا مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے لیکن بات صرف اصول پرختم نہیں ہوتی۔

صحابہ کرامؓ کے عمل سے بھی تکثیر عمرہ کاثبوت ملتا ہے اوراس خاص جزئیے کی بھی دلیل موجود ہے جس پر گفتگو ہورہی ہے۔ پہلے صحابہ کے عمل کو دیکھیے۔ امام ابن قیم متوفی۷۵۱ھ نے ’زاد المعاد‘ میں اور دوسرے محدثین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ ہرمہینے ایک عمرہ ادا فرماتے تھے  اور انھوں نے اس کا بھی اظہار فرمایا کہ اگر طاقت ہوتو اس سے بھی زیادہ عمرے کرنا بہتر ہے۔ حضرت انسؓ  کے بارے میں آتا ہے کہ قیام مکہ کے ایام میں جب ان کے سرکے بال بڑھ جاتے تو عمرہ کرلیتے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یوں ہی سرکے بال کم کرانے یا منڈوانے کےبجائے عمرہ کااجر حاصل کرکے سرکے بال کم کراتے یا منڈواتے تھے۔ فتح القدیر جلد ۲ صفحہ۳۰۶ میں سند کے ساتھ ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ کا وہ فتویٰ نقل کیاہے جو انھوں نے اپنے شاگرد حضرت طائوس کو دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا 

’’یوم عرفہ،یوم النحر اور ایام تشریق کو چھوڑ کر ان سے پہلے اور ان کے بعد تم جس قدر چاہوعمرہ کرو۔‘‘

اس کے بعدجس مسئلے پرگفتگو ہورہی ہے اس کا ثبوت ملاحظہ کیجیے۔یہ صحیح ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کرنے کے لیے حدود حرم سے باہر جاکر تنعیم یا کسی اور مقام سے احرام نہیں باندھا اورعمرہ نہیں کیا،لیکن آپؐ کے حکم سے حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھا تھا لیکن مکے میں داخلے سے پہلے ان کو ماہواری کاعذرپیش آگیا وہ عمرے کے افعال انجام نہیں دے سکیں۔  پھر حضورؐ کے ساتھ حج سے فارغ ہوئیں۔  دوسری ازواج مطہرات نے چوں کہ مستقلاً ایک عمرہ حج سے الگ کیاتھا۔ اس لیے انھیں  الگ عمرہ کرنے کا رنج تھا۔ جب مکہ سے روانگی کا وقت قریب آیاتو انھوں نے اپنے رنج کا اظہار حضورؐ سے کیا،تب انھیں حضورؐ نے حکم دیا کہ اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ جاکر مقام تنعیم سے مستقل عمرہ کرلیں۔  یہ واقعہ تمام کتب احادیث میں مروی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اپنی صحیح کے متعدد ابواب میں روایت کیا ہے۔ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں یہاں وہ تمام الفاظ نقل کرتا، پھر بھی ابودائود کی ایک حدیث نقل کرنا ضروری معلوم ہوتاہے

عن حفصۃ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر عن ابیھا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعبدالرحمن یا عبدالرحمن اردف اختک عائشۃ فاعمرھا من التنعیم فاذا ھبطت من الاکمۃ فلتحرم فانھا عمرۃ متقبلۃ۔                              (ابودائودکتاب المناسک)

’’عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی صاحبزادی حفصہ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن سے کہا اے عبدالرحمٰن! اپنی بہن عائشہ کو اپنی سواری کے پیچھے بٹھالو اور ان کا عمرہ مقام تنعیم سے کرالائو۔ جب ٹیلے سے نیچے اتریں تووہاں عائشہ کو احرام باندھ لینا چاہیے۔اس لیے کہ وہ ایک مقبول عمرہ ہے۔‘‘

اس حدیث سے صراحتاً مقام تنعیم سے عمرہ کرنے کی فضیلت نکلتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اہل مکہ کے لیے مقام تنعیم سے عمرہ کرنا دوسرے مقامات کے مقابلے میں افضل ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ عرصہ دراز سے وہاں ایک مسجد، مسجد عائشہ کے نام سے بنی ہوئی ہے اور صدیوں سے اہل مکہ بلانکیروہاں جاکر عمرے کا احرام باندھتے ہیں۔  تنعیم کے علاوہ دوسرا مقام جہاں سے اہل مکہ عمرہ کرتے ہیں جعرانہ ہے۔ اس لیے کہ یہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود غزوہ حنین سے واپسی میں عمرہ ادا کیا ہے اور اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اہل مکہ کے لیے یہاں سے عمرہ کرنا افضل ہے۔

آخرمیں ایک شبہے کا ازالہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ امام ابن قیم نے ’زاد المعاد‘ میں اس مسئلے پرکئی فصلیں لکھی ہیں۔ میرا قیاس یہ ہے کہ اس مسئلے کی پہلی فصل سے ان صاحب نے دھوکا کھایا ہے جن کا خیال سوال میں نقل کیاگیا ہے۔انھوں نے عبارت پربھی غورنہیں کیا اور شاید پوری بحث پڑھنے کی زحمت بھی گوارانہ کی۔ ابن قیم نے فصل اول میں جوکچھ لکھا ہے اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ آج کل جس طرح بہت سے لوگ مکہ سے باہر جاکر عمرہ کرتے ہیں اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کیا ہے آپ نے جس عمرے کو شرع وقانون کا درجہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ آفاقی جب مکہ میں داخل ہوتو احرام باندھے بغیر داخل نہ ہو اور ایام حج کے علاوہ دوسرےایام میں داخل ہورہاہوتو عمرہ ادا کرے۔ چوں کہ انھوں نے زادالمعاد حضورؐ کی سیرت میں لکھی ہے اس لیے ان کو یہ بات واضح کرنی ہی چاہیے تھی۔یہی وجہ ہے کہ چند سطروں میں اس کی وضاحت کرکے انھوں نے پہلی فصل ختم کردی ہے۔اس سے ان کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ بہت سے لوگ جومکہ سے باہر جاکر عمرہ کرتے ہیں انھیں ایسا نہ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ فعل ’غیرمسنون‘ اور ’غیرمشروع‘ ہے۔ اگر ان کی عبارت سے کسی نے ایسا سمجھ لیا ہے تو صحیح نہیں سمجھا۔اس کی دلیل خودزاد المعاد کی وہ فصلیں ہیں جوانھوں نے متصلاً پہلی فصل کے بعد لکھی ہیں۔ ان فصلوں میں ائمہ کے مذاہب، صحابہؓ کے عمل اور حضرت عائشہؓ کے واقعہ پر مفصل بحث موجود ہے۔یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ امام ابن قیم حنبلی ہیں۔  اس لیے ان کا اس مسئلے میں وہی مسلک ہوگا جو امام احمد بن حنبلؒ کا ہے کیوں کہ  انھوں نے اس میں اپنے اختلاف کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔ اور امام احمد ان ائمہ میں ہیں جو تکثیر عمرہ کو مستحب کہتے ہیں۔ مزید اطمینان کے لیے فقہ حنفی کی ایک تصریح یہاں نقل کی جاتی ہے۔سوال یہ تھا کہ آفاقی کے لیےجب وہ مکہ میں مقیم ہو، طواف افضل ہے یا نماز؟اوراسی طرح ایک سوال یہ پیدا ہواکہ اس کے لیے طواف افضل ہے یا عمرہ؟ اس آخری سوال کا جواب علامہ قاضی ابراہیم مکی نے یہ دیا ہے۔

’’اگر کوئی شخص مسلسل اتنی دیر تک طواف کرتارہے جتنی دیر میں ایک عمر ہ ادا کرتا ہے تو طواف افضل ہے ورنہ عمرہ افضل ہے۔‘‘

قاضی ابراہیم کا یہ جواب علامہ ابن عابدین نے ’درمختار‘ کی شرح میں نقل کیاہے۔ اب فرض کیجیے کہ ایک عمرہ ادا کرنے میں چار گھنٹے وقت صرف ہوتاہے تو جب تک کوئی شخص چارگھنٹے تک طواف نہ کرتا رہے ایک عمرے کے برابر اجر حاصل نہیں کرسکتا۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ عمرے کی فضیلت کے کئی پہلو ہیں جن میں کا ایک یہ ہے کہ وہ بدنی اور مالی دونوں عبادتوں کو جمع کرلیتا ہے کیوں کہ عام طورپر حجاج سواری پر تنعیم جاتے اور آتے ہیں اس کے علاوہ حلاق (بال مونڈنے والا)کو بھی کچھ پیسے دیے جاتے ہیں۔                                     (مئی ۱۹۶۳ء،ج۳۰،ش۵)